بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوا لاکھ بار کلمہ پڑھنا


سوال

کیا یہ روایت ہے کہ اگر کوئی شخص سوا لاکھ مرتبہ کلمہ پڑھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے تو اس کی مغفرت ہو جاتی ہے یا اس مقدار میں پڑھ کر کسی کو بخش دے تو اس کی مغفرت ہو جاتی ہے؟

جواب

اَذکار دو طرح کے ہوتے ہیں:

۱۔ وہ اَذکار  و اَوراد جو خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوں۔ 

۲۔وہ وظائف جو بزرگوں کے تجربات اور معمولات سے متعلق ہوں ۔

جو وظائف واذکار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوتے ہیں،  ان میں ثواب ،مغفرت ، جنت ، جنت میں لگنے والے پودوں کا بھی تذکرہ ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ وہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا بتلایا ہوا ہے، اورآپ علیہ السلام وہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے بتلانے کی وجہ سے بتاتے ہیں ، لہذا ان میں غیب کی چیزوں خصوصاً ثواب وعتاب کا تذکرہ مل سکتا ہے۔

جو وظائف بزرگوں سے منقول ہوں ان میں چوں کہ ان کے اپنے تجربات اور مشاہدہ کا دخل ہوتا ہے، اس لیے ان میں صرف ان ہی چیزوں کا تذکرہ مل سکتا ہے جو مشاہدہ میں آسکتی ہوں یا پھر انہوں نے اس کا تجربہ کیا ہو ، محسوس کیا ہو ، یا اس کا تعلق غیب سے نہ ہو ، یا عمومی نصوص سے استیناس ہو، اگر اس کے علاوہ کوئی چیز ہوگی تو اسے شرعی طور پر معتبر نہیں مانا جائے گا خصوصاً  مخصوص ثواب وعقاب کا تعلق بزرگوں کے تجربات سے نہیں ہے۔

مذکورہ وظیفہ  چوں کہ مغفرت سے متعلق ہے؛ اس لیے یہ صرف اس وقت معتبر ہوگا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو ، اور یہ روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہمیں تلاش کے باوجود نہ مل سکی؛  البتہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ المفاتیح"باب ما علی الماموم من المتابعۃ للامام "(۴/۲۵۴) میں ابن عربی رحمہ اللہ کی "الفتوحات المکیہ " سے حوالہ سے نقل کی ہے، جس کی کوئی سند نہیں، اور اس کی صحت کے لیے خود ابن عربی رحمہ اللہ کےپاس موجود کسی نوجوان کے کشف کا تذکرہ کیا ہے۔

"قَالَ الشَّيْخُ مُحْيِي الدِّينِ بْنُ الْعَرَبِيِّ: إنَّهُ بَلَغَنِي «عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ سَبْعِينَ أَلْفًا غُفِرَ لَهُ، وَمَنْ قِيلَ لَهُ غُفِرَ لَهُ أَيْضًا» ، فَكُنْتُ ذَكَرْتُ التَّهْلِيلَةَ بِالْعَدَدِ الْمَرْوِيِّ مِنْ غَيْرِ أَنْ أَنْوِيَ لِأَحَدٍ بِالْخُصُوصِ، بَلْ عَلَى الْوَجْهِ الْإِجْمَالِيِّ، فَحَضَرْتُ طَعَامًا مَعَ بَعْضِ الْأَصْحَابِ، وَفِيهِمْ شَابٌّ مَشْهُورٌ بِالْكَشْفِ، فَإِذَا هُوَ فِي أَثْنَاءِ الْأَكْلِ أَظْهَرَ الْبُكَاءَ فَسَأَلْتُهُ عَنِ السَّبَبِ فَقَالَ: أَرَى أُمِّي فِي الْعَذَابِ فَوَهَبْتُ فِي بَاطِنِي ثَوَابَ التَّهْلِيلَةِ الْمَذْكُورَةِ لَهَا فَضَحِكَ وَقَالَ: إِنِّي أَرَاهَا الْآنَ فِي حُسْنِ الْمَآبِ، قَالَ الشَّيْخُ: فَعَرَفْتُ صِحَّةَ الْحَدِيثِ بِصِحَّةِ كَشْفِهِ، وَصِحَّةَ كَشْفِهِ بِصِحَّةِ الْحَدِيثِ".(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، للعلامة علي القاري، (المتوفى: 1014هـ) ص:879 ج:3 ط: دار الفكر، بيروت – لبنان)

تاہم احادیثِ مبارکہ کی تصحیح وتضعیف کشف وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوسکتی ہے،   اس لیے اس روایت کو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ کلمۂ طیبہ کے دیگر بہت سے فضائل احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں، اور احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ کلمہ ایک مرتبہ بھی اِخلاص کے ساتھ کہہ دیا جائے تو انسان کی اَبدی کامیابی اور کامل مغفرت کا، یا بالآخر مغفرت کا ذریعہ بن جاتاہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200867

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں