بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حجام کا پیشہ اختیار کرنے اور استخارہ کرنے کا حکم


سوال

1۔ حجام کا کام کیسا ہے؟  میرے دادا اور میرے والد کا بھی یہی کام تھا اور اب میرے بھائی بھی یہی کام کرتے ہیں۔ برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں!

2۔ استخارہ کرنا جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

1۔ حجام کے پیشے کا حکم:

حجام کا کام جائز ہے، اور اس کی آمدنی حلال ہے،بشرطیکہ اس میں ناجائز انداز سے بال نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی داڑھی حد شرعی سے زیادہ کاٹی جائے۔ ان ناجائز امور سے بچتے ہوئے یہ کام جائز ہے، اگر  حجام ناجائز انداز سے بال کاٹے یا داڑھی شرعی حد سے کم کرے تو یہ جائز نہیں ہے۔ 

 اگر کوئی شرعی شرائط کے مطابق یہ پیشہ جاری رکھے تو بہتر ہے تاکہ دوسروں کے لیے مثال بنے۔

  استخارہ کا حکم:

"استخارہ" کامعنی خیر طلب کرناہے، یعنی اپنے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی کی دعا کرے۔ اہم امور میں اس کا کرنا سنت ہے۔

 

اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھی جائے، اس کے بعد پوری توجہ کے ساتھ یہ دعا پڑھے:

'' اللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِيْ فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، أَوْ قَالَ: عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِه فَاقْدُرْهُ لِيْ وَیَسِّرْهُ لِيْ ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِیْهِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِيْ فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ أَوْ قَالَ: عَاجِلِ أَمْرِيْ وَاٰجِلِه فَاصْرِفُه عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِه''۔ (صحیح البخاري رقم:۱۱۶۶، سنن الترمذي۴۰۸، سنن أبي داؤد۱۵۳۸)

ترجمہ:- اے اللہ! میں آپ کے علم کے ذریعہ خیر کا طالب ہوں، اور آپ کی قدرت سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور آپ کے فضلِ عظیم کا سائل ہوں، بے شک آپ قادر ہیں اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور آپ کو علم ہے اور میں لاعلم ہوں، اور آپ چھپی ہوئی باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اے اللہ! اگر آپ علم کے مطابق یہ کام (یہاں اس کام کا تصور کرے) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کار کے اعتبار سے) بہتر ہے، تو اسے میرے لیے مقدر فرمائیے، اور اسے میرے حق میں آسان کرکے اس میں مجھے برکت سے نوازیے، اور اگر آپ کو علم ہے کہ یہ کام (یہاں کام کا تصور کرے) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کے اعتبار سے) برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے ہٹادے اور جس جانب خیر ہے وہی میرے لیے مقدر فرمادے، پھر مجھے اس عمل سے راضی کردے۔

دعا پڑھتے ہوئے جب""هذا الأمر"" پر پہنچے تو دونوں جگہ اس کام کا دل میں دھیان جمائے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے، یا دعا پوری پڑھنے کے بعد اس کام کو ذکر کرے۔ دعا کے شروع اور اخیر میں اللہ کی حمد وثنا اور درود شریف بھی ملالے، اور اگر عربی میں دعا نہ پڑھی جاسکے تو اردو یا اپنی مادری زبان میں اسی مفہوم کی دعا مانگے۔

''ومنها: رکعة الاستخارة: عن جابر بن عبد اللّٰه قال: کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم یعلّمنا الاستخارة في الأمور کلها … الخ۔ رواه الجماعة إلا مسلمًا۔ شرح المنیة … ویسمی حاجته، قال ط: أي بدل قوله "هذا الأمر". قلت: أو یقول بعده: وهو کذا وکذا … وفي الحلیة: ویستحب افتتاح هذا الدعاء وختمه بالحمدلة والصلاة''۔ (الدر المختار مع الشامي / باب الوتر والنوافل۲؍۴۷۰) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں