بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حجام کا اپنی کمائی سے مسجد میں چندہ دینا اور اس کو قبول کرنا


سوال

ایک آدمی حمام کی دوکان چلا رہاہے، اس میں ڈاڑھی شیو اور کاٹتا بھی ہے، اور سر کے بال مختلف قسم کے  بناتاہے، اب اس دوکان کی کمائی سے ہر مہینے میں اپنے قریب مسجد کے ساتھ 500 سو تعاون کرتاہے، کیا اس کا یہ تعاون مسجد کے ساتھ درست ہے یا نہیں؟  اور مسجد والوں کے  لیے  یہ تعاون لینا درست ہے یا نہیں؟

جواب

حجام/نائی کی  اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں، یعنی داڑھی مونڈنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے، اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو  شرعی طریقے پر درست کرنا، ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے، البتہ جیسے  خلافِ شرع بال (مثلاً: سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے اور کچھ کے بڑے) رکھنا ممنوع ہے اسی طرح خلافِ شرع بال کاٹنے کی اجرت بھی حلال طیب نہیں۔

اب اگر حجام اپنی حلال آمدنی سے چندہ دیتا ہے، یا اس کی آمدنی مخلوط ہے لیکن حلال آمدنی غالب ہے تو  اس صورت میں اس کا مسجد میں دیا ہوا چندہ قبول کرنا درست ہے۔ اور  اگر اس کی آمدنی خالص حرام ہے، یا یہ یقینی معلوم ہے کہ وہ حرام آمدنی سے چندہ دے رہا ہے یا اس کی آمدنی میں غالب حرام کا مال ہے تو اس کے چندہ کا مسجد میں استعمال درست نہیں ہے، اس کو حکمت سے  بات سمجھادی جائے اور حلال کمائی کی ترغیب دی جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع". (5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط". (5 / 343، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)(مجمع الانھر، (2/529) کتاب الکراہیۃ، ط: دار احیاء التراث العربی)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں