بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کی نیت سے جمع کی جانے والی رقم پر زکاۃ کا حکم


سوال

عبداللّٰہ حج کی نیت سے ہر ماہ کی تنخواہ میں  سے کچھ بچا کر ایک بینک اکاؤنٹ میں جمع کرتا ہے، اب وہ رقم نصاب کو پہنچ گئی، مگر حج کے اخراجات کےلیے ناکافی ہے,  اب سال گزرنے پر اس مال کی زکاۃ ادا کرنی ہو گی؟ نیز کس حساب سے ادا کرنی ہوگی؟ کیوں کہ اس اکاؤنٹ میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ زائد رقم جمع کی جاتی ہے.

جواب

حج کی نیت سے جمع کی جانے والی رقم اگر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) تک پہنچ جائے تو سال گزرنے کے بعد اس رقم پر زکاۃ واجب ہوجائے گی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عبداللہ  حج کے اخراجات کی نیت سے جو رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع کرتا رہا ہے جس وقت وہ رقم نصاب کے بقدر ہوگئی تھی اس وقت کے ٹھیک ایک سال بعد جتنی رقم اکاؤنٹ میں جمع ہوچکی ہو اس پوری رقم پر ڈھائی فی صد زکاۃ لازم ہوگی، ہر ماہ جمع کی جانے والی رقم پر الگ سے سال گزرنا شرط نہیں ہے، بلکہ نصاب کے بقدر  رقم ملکیت میں آنے کے بعد سال پورا ہونے سے ایک دن پہلے بھی جو رقم ملکیت میں آئی ہو سال مکمل ہونے پر اس کی بھی زکاۃ ادا کرنی ہوتی ہے۔

اور اگر عبداللہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو پھر حج کے لیے جمع کی جانے والی رقم کا الگ سے حساب نہیں ہوگا، بلکہ سابقہ حساب سے زکاۃ کا سال مکمل ہونے والے دن عبداللہ کی ملکیت میں جتنی نقدی ہو (بشمول اخراجاتِ حج کی مد میں جمع کی گئی رقم)، کل کا ڈھائی فی صد بطورِ زکاۃ ادا کرنا ہوگا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 262):

"أن الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة، وكذا في البدائع في بحث النماء التقديري. اهـ.

قلت: وأقره في النهر والشرنبلالية وشرح المقدسي، وسيصرح به الشارح أيضاً، ونحوه قوله في السراج سواء أمسكه للتجارة أو غيرها، وكذا قوله في التتارخانية نوى التجارة أولا، لكن حيث كان ما قاله ابن ملك موافقاً لظاهر عبارات المتون كما علمت، وقال ح إنه الحق فالأولى التوفيق بحمل ما في البدائع وغيرها، على ما إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضاً في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں