بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کی مشروط نذر ماننے کے بعد شرط کے پورا ہونے سے پہلے نذر کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم/ دل میں نذر ماننے کا حکم


سوال

ایک شخص نے نذر مانی کہ اگر اس کا فلاں کام ہوگیا تو وہ حج کرے گا، پھر اس نے سوچا کہ شاید حج نہ کر سکوں تو کام ہونے سے پہلے اس نے عمرہ کی منت مان لی! اب اس کے ذمہ کیا ہوگا؟

ہمیں کچھ دیگر اسی مسئلہ سے متعلق جزیات معلوم کرنی ہیں جو کہ حسب ذیل ہیں:

1_اگر نذر دل میں مانی ہے اور زبان سے اس کا تلفظ نہیں کیا تو کیا حکم ہے؟

2_اگر تلفط کیا ہے اور متصلاً  کہا ہے کہ حج کروں گا، بلکہ عمرہ کروں گا تو کیا حکم ہوگا؟

3_اگر تھوڑا فصل کرکے ایک ہی مجلس میں کہا کہ عمرہ کروں گا تو کیا حکم ہے؟

4_اگر مجلس ختم ہوجانے کے بعد نذر کے واقع ہونے سے پہلے کہا ہے کہ عمرہ کروں گا تو کیا حکم ہے؟

آخری جزئیہ کے متعلق مفتیانِ کرام سے جب استفسار کیا گیا تو کچھ حضرات نے کہا ہے کہ یہ تعددِ نذر پر محمول ہے اور حج و عمرہ دونوں لازم ہیں۔ جب کہ بعض دیگر حضرات کا یہ کہنا ہے کہ صرف عمرہ لازم ہوگا حج نہیں کرنا ہوگا، ان کا یہ کہنا ہے کہ کتبِ فقہ سے یہ ذہن بنتا ہے کہ قبل الوقوع نذر کے وصف میں تبدیلی کی جاسکتی ہے، البتہ بعد الوقوع نہیں کی جاسکتی؛ لہذا یہاں بھی وصف میں تبدیلی جائز ہے۔ بعض دیگر حضرات کا کہنا یہ ہے کہ حج لازم ہوگا؛ اس لیے کہ البحر الرائق میں ہے :والنذر في معنى الطلاق و العتاق لأنه لايحتمل الفسخ بعد الوقوع. (البحر الرائق كتاب الصوم ، فصل في النذر). اس عبارت سے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وصف میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ جب کہ جو حضرات قبل الوقوع وصف کی تبدیلی کو جائز قرار دے رہے ہیں انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ مذکورہ عبارت میں فسخ بعد الوقوع کی بات ہے جب کہ ہم نے قبل الوقوع وصف میں تبدیلی کے جائز ہونے کی بات کی ہے۔

برائے کرم فقہاء کرام کی واضح عبارات سے جواب عنایت فرمائیں!

جواب

1-  صورتِ مسئولہ میں حج کی مشروط نذر ماننے کے بعد جب مذکورہ شخص نے  یہ سوچ کر کہ شاید حج نہ کر سکوں عمرہ کی بھی نذر مان لی تو حج کی نذر کے ساتھ عمرہ کی بھی مشروط نذر منعقد ہوگئی،  لہٰذا   اگر مذکورہ شخص کا وہ کام ہوگیا جس کام کے ہونے پر اس نے نذر کو معلق کیا تھا تو اس  پر نذر ماننے کی وجہ سے حج اور عمرہ لازم ہوجائیں گے ۔

2- نذر منعقد ہونے کے لیے زبان سے نذر کا تلفظ کرنا شرط ہے، لہٰذا زبان سے تلفظ  کیے  بغیر صرف دل میں نذر ماننے سے نذر منعقد نہیں ہوگی۔ لہٰذا اگر حج یا عمرے کی نذر کا دل میں ارادہ کیاتھا، زبان سے تلفظ نہیں کیا تو نذر منعقد نہیں ہوئی، اس صورت میں مذکورہ کام ہونے کے بعد حج یا عمرے میں سے جس پر تلفظ نہ کیا ہو وہ لازم نہیں ہوگا۔

3،4،5-  ان تینوں صورتوں کا حکم ایک ہی ہے، یعنی حج کی نذر ماننے کے بعد چاہے متصلاً یہ کہے، یا منفصلاً کہے یا مجلس ختم ہونے کے بعد کہےکہ’’بلکہ عمرہ کروں گا‘‘ تو ان تینوں صورتوں میں حج اور عمرہ دونوں کی نذر منعقد ہوجائے گی، یہ جملہ ’’بلکہ عمرہ کروں گا‘‘ کہنے سے حج کی نذر سے رجوع نہیں ہوسکتا ہے، کیوں کہ نذر بلا نیت واقع ہونے اور فسخ کا احتمال نہ رکھنے میں طلاق کی طرح ہے، چناں چہ کتبِ فقہ کی مراجعت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نذر کے الفاظ کا تلفظ ہونے اور نذر کے منعقد ہونے کے بعد اس نذر سے رجوع ممکن نہیں ہے۔

لہٰذا جو حضرات البحر الرائق کی  اس عبارت ’’ والنذر في معنى الطلاق و العتاق لأنه لايحتمل الفسخ بعد وقوعه‘‘ سے استدلال کر کے نذرِ اول میں وصف کی تبدیلی کو بنیاد بناکر حج کے بجائے عمرہ لازم ہونے کا کہہ رہے ہیں ان کی بات ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ ’’بحر‘‘ کی عبارت میں ’’بعد وقوعہ‘‘ سے مراد نذر کا وقوع یعنی نذر کا انعقاد مراد ہے، اور نذر تو دیگر شرائط کی موجودگی میں صرف تلفظ سے منعقد ہوجاتی ہے، ان حضرات کو شاید یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انہوں نے ’’بعد وقوعہ‘‘ سے مراد نذرِ مشروط کی شرط کا وقوع مراد لے لیا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ حج کو عمرے سے تبدیل کرنا نذر کے وصف میں تبدیلی نہیں ہے، بلکہ نذر میں تبدیلی ہے، اس لیے کہ حج اور عمرہ دونوں مستقل عبادات ہیں، وصف کی تبدیلی یوں ہوسکتی ہے کہ سنت عمرہ یا نفل عمرہ، وغیرہ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 735):

"(ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر)؛ لحديث: «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى»، (كصوم وصلاة وصدقة) ووقف (واعتكاف) وإعتاق رقبة وحج ولو ماشياً فإنها عبادات مقصودة، ومن جنسها واجب؛ لوجوب العتق في الكفارة والمشي للحج على القادر من أهل مكة ... (ثم إن) المعلق فيه تفصيل فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفي) وجوباً (إن وجد) الشرط.

 (قوله: ومن نذر نذراً مطلقاً) أي غير معلق بشرط، مثل: "لله علي صوم سنة" فتح، وأفاد أنه يلزمه ولو لم يقصده كما لو أراد أن يقول كلاماً فجرى على لسانه النذر؛ لأن هزل النذر كالجد كالطلاق كما في صيام الفتح، وكما لو أراد أن يقول: لله علي صوم يوم، فجرى على لسانه صوم شهر كما في صيام البحر عن الولوالجية. واعلم أن النذر قربة مشروعة، أما كونه قربةً فلما يلازمه من القرب كالصلاة والصوم والحج والعتق ونحوها، وأما شرعيته فللأوامر الواردة بإيفائه، وتمامه في الاختيار".

الفتاوى الهندية (1/ 262):

"الحج كما هو واجب بإيجاب الله تعالى ابتداء على من استجمع شرائط الوجوب وهو حجة الإسلام فقد يجب بإيجاب الله تعالى بناء على وجوب سبب الوجوب من العبد وهو بأن يقول: لله علي حجة وكذا لو قال: علي حجة سواء كان النذر مطلقاً أو معلقاً بشرط، بأن قال: إن فعلت، كذا فلله علي أن أحج حتى يلزمه الوفاء إذا وجد الشرط ولايخرج بالكفارة في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، كذا في البدائع".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 93):

"(وأما) وقت ثبوت هذا الحكم فالنذر لايخلو إما أن يكون مطلقاً، وإما أن يكون معلقاً بشرط ... وإن كان معلقاً بشرط نحو أن يقول: إن شفى الله مريضي، أو إن قدم فلان الغائب فلله علي أن أصوم شهراً، أو أصلي ركعتين، أو أتصدق بدرهم، ونحو ذلك فوقته وقت الشرط، فما لم يوجد الشرط لايجب بالإجماع".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 81):

"(كتاب النذر)

الكلام في هذا الكتاب في الأصل في ثلاثة مواضع: في بيان ركن النذر، وفي بيان شرائط الركن، وفي بيان حكم النذر أما الأول: فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك. ... إذ الوجوب عند وجود الصيغة من الأهل في المحل بإيجاب الله تعالى".

الفتاوى البزازية (2 ؍3 ):

"و النذر لايكون الا باللسان ولو نذر بقلبه لايلزم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 714):

"وفي البحر عن الخلاصة والتجريد: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين، والمجلس والمجالس سواء؛ ولو قال: عنيت بالثاني الأول ففي حلفه بالله لايقبل، وبحجة أو عمرة يقبل.

 (قوله: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية (قوله: وبحجة أو عمرة يقبل) لعل وجهه أن قوله: إن فعلت كذا فعلي حجة، ثم حلف ثانياً كذلك، يحتمل أن يكون الثاني إخباراً عن الأول، بخلاف قوله: والله لاأفعله مرتين، فإن الثاني لايحتمل الإخبار فلاتصح به نية الأول، ثم رأيته كذلك في الذخيرة. وفي ط عن الهندية عن المبسوط: وإن كان إحدى اليمينين بحجة والأخرى بالله تعالى فعليه كفارة وحجة".

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 490):

"الحسن بن زياد عن أبي حنيفة إذا قال: أنا محرم بحجة بل بعمرة إن فعلت كذا ففعل، فعليه حجة وعمرة".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 317):

"وأما بل فإذا قال للمدخولة: أنت طالق واحدة لا بل ثنتين، تقع الثلاث؛ لأنه أخبر أنه غلط في إيقاع الواحدة ورجع عنها وقصد إيقاع الثنتين قائماً مقام الواحدة، فصح إيقاع الثنتين ولم يصح الرجوع عن الواحدة".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 319):

"ذكر الولوالجي في فتاويه رجل أراد أن يقول: لله علي صوم يوم فجرى على لسانه صوم شهر كان عليه صوم شهر وكذا إذا أراد شيئاً فجرى على لسانه الطلاق، أو العتاق أو النذر لزمه ذلك لقوله عليه السلام: «ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: الطلاق والعتاق والنكاح»، والنذر في معنى الطلاق والعتاق؛ لأنه لايحتمل الفسخ بعد وقوعه. اهـ".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں