جب حج پر جاتے ہیں تو قربانی کا کیا حکم ہے؟ حج کا دمِ شکر اور قربانی دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ اور کیا مسافر پر قربانی فرض ہے؟
قربانی دو طرح کی ہوتی ہے: (1) ایک قربانی تو وہ ہے جو صاحبِ نصاب مقیم پر واجب ہوتی ہے خواہ حج کرنے جائے یا نہ جائے، اگر حاجی صاحبِ نصاب ہے اور قربانی کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں مقیم ہے یعنی منی جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن اس کا قیام ہو یا مستقل وہیں رہتا ہے، تو اس پر یہ قربانی واجب ہے، اور اسے اختیار ہے کہ چاہے تو مکہ مکرمہ یا مدینہ مٰیں قربانی کا انتظام کرے یا اپنے وطن میں قربانی کی رقم بھیج دے یا وطن میں کسی کو قربانی کرنے کا کہہ دے، البتہ منیٰ میں قربانی کرنے کا ثواب پوری دنیا کی تمام جگہوں سے زیادہ ہے۔ (2) دوسری قربانی سے مراد "دمِ شکر" ہے، یہ حجِ قِران اور تمتع کرنے والوں پر ایامِ نحر (10،11،12 ذوالحجہ) میں حلق (سرمنڈوانے) یا بال کٹوانے سے پہلے منیٰ یا حدود حرم میں یہ قربانی کرنا واجب ہے۔حجِ افراد (صرف حج) کرنے والوں پر یہ قربانی واجب نہیں ہے۔
حاصل یہ ہوا کہ حجِ افراد کی صورت میں مقیم اور صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں صرف پہلی قسم کی قربانی واجب ہوگی، اور اگر مقیم نہ ہو یا استطاعت نہ ہوتو کچھ بھی واجب نہیں ہوگا ، اور قارن (حج قران کرنے والے) اور متمتع (حجِ تمتع کرنے والے) پر مقیم اور صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں دو نوں قسم کی قربانیاں لازم ہوں گی، ورنہ صرف دوسری قسم یعنی دمِ شکر لازم ہوگی۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908201107
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن