بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج سے متعلق متفرق مسائل


سوال

 مندرجہ ذیل مسائل میں راہ نمائی فرمادیں۔

1۔ اگر حالتِ حیض میں عمرہ کیے بغیر حج شروع ہو جائے؟  جیسے ماہواری کی حالت میں مکہ پہنچنا اور ختم ہو نے سے پہلے حج شروع ہو جائے۔

2. حالتِ حیض میں سعی کی جاسکتی ہے؟

3۔مکہ مکرمہ میں پندرہ دن قیام سے پہلے حج شروع ہو جائے،  مسافرت یا اقامت شمار کیا جائے گا؟ اگر حج کے بعد پندرہ دن ہو یا نہ ہو۔

4۔اگر مکہ مکرمہ سے اپنے وطن کے بجائے مدینہ منورہ روانگی ہو تو طوافِ وداع کا حکم؟

5. طوافِ زیارت کی سعی حج سے پہلے کی جا سکتی ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس کے لیے نفلی طواف کرنا ہوگا اور رمل اور اضطباع بھی؟

6۔ محرم احرام سے نکلنے کے لیے اپنے بال خود کاٹ سکتا ہے؟

7 . جنایت کے صدقہ میں رقم کا اعتبار مکہ کا ہوگا یا اپنے وطن کا؟

8۔حرم کا وہ حصہ جو دروازے اور مطاف کے درمیان ہے جیسے صحن اور سیڑھیاں مسجد میں داخل ہے؟ حائضہ عورت کے لیے حرم میں کہاں تک گنجائش ہے؟

جواب

1۔ ماہواری کی وجہ سے عمرہ ادا کرنے سے پہلے اگر حج کے ایام شروع ہوجائیں تو اس صورت میں مذکورہ خاتون عمرہ کا احرام کھول کر غسل یا وضو کر کے حج کے لیے احرام باندھ لے اور طواف کے علاوہ حج کے افعال ادا کرتی رہے اور پاک ہونے کے بعد طوافِ زیارت کرکے حج سے فارغ جائے اور جو عمرہ ماہواری کی وجہ سے رہ گیا تھا وہ مسجدِ تنعیم یا مسجد جعرانہ سے احرام باندھ کر ادا کرلے، مذکورہ صورت میں عورت پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا۔  غنیۃ الناسک میں ہے:

"وحيضها لا يمنع نسكاً إلا الطواف، فهو حرام من وجهين: دخولها المسجد، و ترك واجب الطهارة، فلو حاضت قبل الإحرام، إغتسلت و أحرمت، و شهدت جميع المناسك، إلا الطواف، و السعي؛ لأنه لا يصح بدون الطواف و لا يلزمها دم لترك الصدر، و تأخير الزيارة عن وقته لعذر الحيض و النفاس". (باب الإحرام، فصل في إحرام المرأة، ط: إدارة القرآن)

2۔ حیض کی حالت میں سعی نہیں کرنی چاہیے، تاہم اگر کسی نے کرلی تو ادا ہوجائے گی، دوبارہ سعی کرلینا بہتر ہے لازمی نہیں۔  جیساکہ فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن سعی جنباً أو حائضاً أو نفساء، فسعيه صحيح". (كتاب المناسك، الباب الثامن في الجنايات، الفصل الخامس في الطواف و السعي، ١/ ٢٤٧، ط: رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"و الأفضل أن يعيد السعي؛ لأنه تبع للطواف، و إن لم يعده فلا شيء عليه؛ لأن الطهارة ليست شرطاً في السعي". (كتاب الحج، باب الجنايات، ٣/ ٢٢، ط: سعيد)

3۔ حج کے ایام میں منی روانگی سے قبل جس شخص کا پندرہ دن یا اس سے زیادہ دنوں تک مکہ مکرمہ میں قیام ہو وہ مقیم شمار ہوگا جب کہ منی روانگی سے قبل تک جس کا مکہ مکرمہ میں قیام پندرہ دن نہ ہو وہ مسافر شمار ہوگا۔

4۔ میقات سے باہر رہنے والوں پر حج سے فارغ ہونے کے بعد مکہ مکرمہ سے واپس ہوتے وقت طوافِ وداع کرنا واجب ہے، خواہ مکہ مکرمہ سے نکل کر براہِ راست اپنے وطن لوٹنا ہو یا مدینہ منورہ سے ہوکر لوٹنا ہو، لہذا مدینہ منورہ روانگی سے قبل طوافِ وداع کرکے روانہ ہوناچاہیے۔  الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"طاف للصدر أو الوداع سبعة أشواط بلا رمل و سعي و هو واجب إلا علي أهل مكة و من في حكمهم". (كتاب الحج، مطلب في طواف الصدر، ٢/ ٥٢٣، ط: سعيد)

5۔ طوافِ زیارت کی سعی حج سے پہلے کی جاسکتی ہے، البتہ اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ حج کا احرام باندھ کر پہلے  ایک نفلی طواف کیا جائے پھر سعی کی جائے۔ اور اس طواف  میں مردوں کے لیے اضطباع بھی ہوگا اور پہلے تین چکروں میں رمل بھی کرنا ہوگا۔"اللباب في شرح الكتاب" میں ہے:

"(فإن كان سعی بين الصفا و المروة) سابقاً (عقب طواف القدوم لم يرمل في هذا الطواف)؛ لأن الرمل في طواف بعده سعي..."الخ (كتاب الحج، ١/ ١٩٢، ط: دار الكتاب العربي)

6۔ محرم احرام سے نکلنے کے لیے خود اپنے بال کاٹ سکتا ہے۔

7۔ مکہ مکرمہ کا اعتبار ہوگا۔

8۔ مسجدِ حرام کے داخلی دروازے سے لے کر اندر تک کی تمام جگہ مسجد حرام کا حصہ ہے جہاں حیض، نفاس یا جنابت کی حالت میں جانے کی اجازت نہیں البتہ سعی کا مقام مسجدِ حرام کا حصہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201326

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں