بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج تمتع کرنے والے کا حج سے پہلے ایک سے زائد عمرے کرنا


سوال

کیا حجِ تمتع والا , عمرہ کرنے کے بعد حج کے ایام سے قبل تک جو وقت ہے اس میں مزید عمرہ کرسکتا ہے? یانہیں? اگر کرلیا ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب

حج تمتع کرنے والاشخص عمرہ کے طواف ، سعی ، اور حلق یا قصر سے فارغ ہونے کے بعد  حج سے پہلے یعنی ذی الحجہ کی سات تاریخ تک جتنے چاہے عمرے کرسکتاہے،راجح قول کے مطابق اس میں کسی قسم کی قباحت یا کراہت نہیں ہے۔ نیز اگر متمتع عمرہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ چلاجائے اور پھر حج کے لیے حرم میں آئے تو اس سفر اور مدینہ کے میقات سے عمرہ کرنے سے بھی راجح قول کے مطابق اس کا حجِ تمتع باقی رہے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 537)
'' أفاد أنه يفعل ما يفعله الحلال، فيطوف بالبيت ما بدا له ويعتمر قبل الحج، وصرح في اللباب بأنه لا يعتمر: أي بناءً على أنه صار في حكم المكي، وأن المكي ممنوع من العمرة في أشهر الحج وإن لم يحج، وهو الذي حط عليه كلام الفتح. وخالفه في البحر وغيره بأنه ممنوع منها إن حج من عامه، وسيأتي تمامه''۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 171)
'' فأما إذا عاد إلى غير أهله بأن خرج من الميقات ولحق بموضع لأهله القران والتمتع كالبصرة مثلاً أو نحوها، واتخذ هناك داراً أو لم يتخذ، توطن بها أو لم يتوطن ثم عاد إلى مكة، وحج من عامه ذلك، فهل يكون متمتعاً؟ ذكر في الجامع الصغير: أنه يكون متمتعاً، ولم يذكر الخلاف، وذكر القاضي أيضاً: أنه يكون متمتعاً في قولهم. وذكر الطحاوي: أنه يكون متمتعاً في قول أبي حنيفة، وهذا وما إذا أقام بمكة ولم يبرح منها سواء. وأما في قول أبي يوسف ومحمد فلا يكون متمتعاً، ولحوقه بموضع لأهله التمتع والقران، ولحوقه بأهله سواء.
وجه قولهما: أنه لما جاوز الميقات، ووصل إلى موضع لأهله التمتع والقران فقد بطل حكم السفر الأول، وخرج من أن يكون من أهل مكة؛ لوجود إنشاء سفر آخر، فلا يكون متمتعاً، كما لو رجع إلى أهله، ولأبي حنيفة: أن وصوله إلى موضع لأهله القران والتمتع لا يبطل السفر الأول، ما لم يعد إلى منزله؛ لأن المسافر ما دام يتردد في سفره يعد ذلك كله منه سفراً واحداً ما لم يعد إلى منزله، ولم يعد ههنا، فكان السفر الأول قائماً، فصار كأنه لم يبرح من مكة فيكون متمتعاً، ويلزمه هدي المتعة''.

(وکذا فی "غنیۃ الناسک ص:215، ط: ادارۃ القرآن ۔ وارشاد الساری ، ص: 399، 400، ط: الامدادیہ)فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143909201851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں