کیا پیریڈز میں طلاق دینا ضروری ہے ؟ اگر ضروری ہے تو اس کی وجہ بتادیں۔
اگر آپ کے سوال کا مقصد حالتِ حیض میں طلاق دینے کے حکم سے متعلق ہے تو شرعاً حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے، فقہ حنفی میں اس کو ’’طلاقِ بدعی‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ طلاق جو سنت کے خلاف ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب لاعلمی میں اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی تھی تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رجوع کر لیں اور پھر اگر چاہیں تو دوبارہ طہر کی حالت میں طلاق دیں، رجوع کا حکم دینے سے معلوم ہوا کہ حالتِ حیض میں اگرچہ طلاق دیناجائز نہیں، لیکن اگر طلاق دے دی تو طلاق بہرحال واقع ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایک یا دو طلاقِ رجعی دی ہوں تو گناہ کی تلافی کے لیے رجوع کرنا چاہیے۔ اور اگر رجوع نہیں کیا تو جس حیض میں طلاق دی گئی ہے وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا، اس کے بعد کامل تین حیض عدت ہوں گے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 232):
"(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال: والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد (وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعاً للمعصية. فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144106201168
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن