بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حمل میں ہم بستری کے جواز پر ایک اشکال کا جواب


سوال

حالتِ حمل میں بیوی سے ہم بستری کرسکتا ہے؟ حال آں کہ یہ جو ہم بستری یہ اس کا اصل مقصد بچے کی پیدائش ہے، امت کا بڑھانا ہے تو یہ مقصد حاصل ہوگیا ہے، اب اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

حالتِ حمل میں کسی بھی وقت بیوی سے ہم بستری کرنا شرعاً جائز ہے، بلکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ حالتِ حمل میں ہم بستری کرنے سے بچے کے بال بڑھتے ہیں اور اس کی بینائی اور سماعت بھی تیز ہوتی ہے، اور طبعی طور پر بھی اسے زیادہ رغبت کا زمانہ قرار دیا جاتاہے، اس لیے حمل ٹھہرجانے کے بعد بھی ہم بستری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،  باقی یہ کہنا کہ ہم بستری کا مقصد صرف بچے کی پیدائش کا حصول ہے درست نہیں ہے، کیوں کہ ہم بستری کا ایک مقصد عفت و پاک دامنی کا حصول اور حرام میں پڑنے سے بچنا بھی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ حالتِ حمل میں شریعتِ مطہرہ کی طرف سے ہم بستری کی کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی ہے، البتہ اگر کوئی دِین دار و ماہر طبیب یا ڈاکٹر کسی عذر کی بنا پر احتیاط کا مشورہ دے تو اس کی بات پر عمل کرنا چاہیے۔

الدر المختار مع ردالمحتار" میں ہے:

"لئلايسقي ماء ه زرع غيره؛ إذ الشعر ينبت منه.
(قوله: إذ الشعر ينبت منه) المراد ازدياد نبات الشعر، لا أصل نباته، ولذا قال في التبيين والكافي: لأن به يزداد سمعه وبصره حدةً كما جاء في الخبر. اهـ.
وهذه حكمته، وإلا فالمراد المنع من الوطء ؛ لما في الفتح قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «لايحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماء ه زرع غيره». يعني إتيان الحبلى. رواه أبو داود والترمذي وقال:حديث حسن. اهـ. شرنبلالية". (الدر المختار مع رد المحتار (3/ 49) 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200887

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں