بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ جنابت میں امامت کی تو کیا حکم ہے؟


سوال

ایک شخص نے حالتِ  جنابت میں نماز پڑھادی،  بعد میں عار کے خوف سے اس نے مقتدیوں میں اعلان نہ کیا،  کافی عرصہ یعنی سال گزر گئے۔  اب اس نے ایک صاحب سے مسئلہ پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے؟انہوں نے جواب دیا کہ جن مقتدیوں کو پہچانتے ہو ان سے نماز کے اعادے کے لیے کہو۔ جن کو نہیں پہچانتے ان کے متعلق توبہ و استغفارکرو۔ اور جولوگ وفات پاچکے ہیں ان کی طرف سے نماز کا فدیہ ادا کرو۔  اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسئلہ درست ہے ؟ اور اگر غلط ہے تو درست مسئلہ کیا ہے؟

جواب

امامت کا منصب انتہائی حساس اورنازک منصب ہے، اور علماء نے امامت کی شرائط میں لکھاہے کہ امامت کرنےوالاآدمی عاقل، بالغ،صحیح تلفظ  کےساتھ قرآنِ کریم پڑھنےوالاہو اور طہارت و نماز کے ضروری مسائل کا جاننےوالاہو،خصوصاً ان مسائل سےواقف ہوجن کاتعلق نمازکےصحیح یافاسد ہونے سے ہوتاہے۔ اور امام کے اوصاف میں سے ہے کہ تقویٰ اورصلاح کی صفت سے متصف ہو؛  لہذا جس شخص میں یہ صفات موجود نہ ہوں اسے اس منصب کے لیے جرأت نہیں کرنی چاہیے۔

نیز جنابت کی حالت میں قرآنِ کریم پڑھنا یا چھوٹی بڑی ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا حرام اور ناجائز ہے،اور  فقہاء نے لکھا ہے کہ جان بوجھ کر استخفاف کی نیت سے جنابت کی حالت میں نما زپڑھانے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔ (کفایت المفتی 3/78)اور اگر استخفاف کی نیت نہ ہو لیکن ناپاکی کے علم کے باجود نماز پڑھتایاپڑھاتاہے تو انتہائی سخت گناہ اور حرام کا مرتکب ہے،ایسے شخص کو صدقِ  دل سے اپنے اس فعل پر اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرنی چاہیے۔اور ایسی حالت میں پڑھی یاپڑھائی گئی نماز نہیں ہوتی؛ لہذا مذکورہ صورت میں امام اور مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی،نمازدوبارہ پڑھنا ضروری ہے ۔

امام کو  چاہیے کہ تمام ذرائع اختیار کرتے ہوئے ان مقتدیوں کو تنہا تنہا یااجتماعی طور پر بذریعہ اعلان اگر ممکن ہوتو خبر کردے؛ تاکہ وہ اپنی نماز کا اعادہ کرلیں،اور جن مقتدیوں کو  اطلاع نہ ہو سکے وہ  معذور ہیں، ان پر کچھ مواخذہ نہیں ہے،نیز امام کو بھی اپنی نماز کا اعادہ کرلیناچاہیے اور اپنے اس فعل پر توبہ و استغفار کرناچاہیے۔اور جو مقتدی دنیا سے رخصت ہوگئے ان پر بھی مواخذہ نہیں ، البتہ ان کی طرف سے امام پر فدیہ کی ادائیگی لازم نہیں ہے۔

تفسیر عثمانی میں سورۃ النساء آیت 43کے تحت مذکور ہے :

''  حق تعالیٰ شانہ، نے مسلمانوں کو نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے اول منع فرمایا کہ یہ جہل کی حالت ہے،  اس کے بعد جنابت میں نماز پڑھنے سے روکا کہ یہ حالت ملائکہ سے بعد اور شیاطین سے قرب کی حالت ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ جہاں جنبی ہوتا ہے وہاں ملائکہ نہیں آتے۔ واللہ اعلم۔ اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اے ایمان والو جب تم کو کفر اور ریا کی خرابی معلوم ہو چکی اور ان کے اضداد کی خوبی واضح ہو چکی تو اس سے نشہ اور جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کی خرابی کو بھی خوب سمجھ لو کہ ان کا منشا بھی وہی ہے جو کفر و ریا کا منشا تھا؛ اس لیے نشہ میں نماز کے نزدیک نہ جانا چاہیے تاوقتیکہ تم کو اس قدر ہوش نہ آجائے کہ جو منہ سے کہو اس کو سمجھ بھی سکو اور نہ حالت جنابت میں نماز کے نزدیک جانا چاہیے تاوقتیکہ غسل نہ کر لو''۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے۔

" در مختار میں ہے کہ اگر امام نے حالتِ جنابت میں یا حالتِ  حدث میں نماز پڑھا دی تو اس کو لازم ہے کہ مقتدیوں کو اطلاع کر دے ۔

پس امام مذکور کو  چاہیے کہ حتیٰ الوسع جو جو مقتدیوں میں سے یاد آجاویں ان کو اطلاع کر دے کہ فلاں وقت کی نماز کا اعادہ کر لیں؛ کیوں کہ وہ نماز نہیں ہوئی تھی اور جو یاد نہ آوے ا س کی نماز ہوگئی ۔ اس کو اطلاع نہ ہونے میں کچھ حرج نہیں ہے ، اگر پھر کبھی یاد آجاوے تو اس کو بھی اطلاع کر دی جاوے اور خود امام مذکور بھی اس نماز کا اعادہ کرے اور اس گناہ سے توبہ و استغفار کرے ۔"

فتاوی شامی میں ہے :

'' ( والأحق بالإمامة ) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر ( الأعلم بأحكام الصلاة ) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة وحفظه قدر فرض وقيل واجب وقيل سنة ( ثم الأحسن تلاوة ) وتجويدا ( للقراءة ثم الأورع ) أي الأكثر اتقاء للشبهات  والتقوى اتقاء المحرمات''۔(1/557)

بدائع الصنائع میں ہے :

'' وأما بيان من هو أحق بالإمامة وأولى بها فالحر أولى بالإمامة من العبد ، والتقي أولى من الفاسق ، والبصير أولى من الأعمى ، وولد الرشدة أولى من ولد الزنا ، وغير الأعرابي من هؤلاء أولى من الأعرابي لما قلنا ، ثم أفضل هؤلاء أعلمهم بالسنة وأفضلهم ورعا وأقرؤهم لكتاب الله - تعالى - وأكبرهم سنا ، ولا شك أن هذه الخصال إذا اجتمعت في إنسان كان هو أولى ، لما بينا أن بناء أمر الإمامة على الفضيلة والكمال ، والمستجمع فيه هذه الخصال من أكمل الناس ، أما العلم والورع وقراءة القرآن فظاهر .''۔(2/127)

فتاوی شامی میں ہے :

'' ( وإذا ظهر حدث إمامه ) وكذا كل مفسد في رأي مقتد ( بطلت فيلزم إعادتها ) لتضمنه صلاة المؤتم صحة وفسادا ( كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب ) أو فاقد شرط أو ركن وهل عليهم إعادتها إن عدلا نعم وإلا ندبت وقيل لا لفسقه باعترافه ولو زعم أنه كافر لم يقبل منه لأن الصلاة دليل الإسلام وأجبر عليه ( بالقدر الممكن ) بلسانه أو ( بكتاب أو رسول على الأصح ) لو معينين وإلا لا يلزمه بحر عن المعراج ''۔(1/591)

وفیہ ایضاً:

'' وبهذا ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر فليحفظ وقد مر''۔

'' ثانيهما أن الجواز بعذر لا يؤثر في عدم الإكفار بلا عذر لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوي الكل في الإكفار وحيث انتفت منها تساوت في عدمه وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه وإلا كان كل تارك لفرض كافرا وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة ا هـ ملخصا أي والاستخفاف في حكم الجحود قوله ( كما في الخانية ) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة وإن الإكفار رواية النوادر وفي ظاهر الرواية لا يكون كفرا وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين فإن كان على وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفرا عند الكل ا هـ  أقول وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لا يكون كفرا عند الكل تأمل ''۔(1/81)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں