بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت احرام میں خوشبو لگے ہونے کی صورت میں حجر اسود کا چھونا یا چومنا


سوال

حالتِ احرام میں حجر اسود کو بوسہ دے دیا اور اس پر خوشبو لگی ہوئی ہو تو کیا دم دینا پڑے گا؟

جواب

آج کل حجر اسود پر خوشبو لگی ہوتی ہے ، اس لیے احرام کی حالت میں اس کو چھونا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے احرام کی حالت میں حجر اسود کا بوسہ لیا اور اس کو چھوا  جس کی وجہ سے منہ یا ہاتھ پر خوشبو لگ گئی تو زیادہ خوشبو لگنے کی صورت میں دم لازم آئے گا اور معمولی خوشبو لگنے کی صورت میں دم تو لازم نہیں آئے گا، البتہ صدقہ فطر  (یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) کے برابر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

اور خوشبو کے زیادہ اور کم ہونے کی مقدار کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض فقہاء نے کثرت کی حد بڑے عضو کو قرار دیا ہے، یعنی اعضائے جسم میں سے بڑے عضو پر مکمل طورپر خوشبو لگ جائے۔  اور بعض فقہاء نے ایک چوتھائی عضو کو  کثرت کی حد قرار دیا ہے ، جب کہ بعض فقہاء نے کہاکہ اگر لوگ اسے زیادہ سمجھیں تو وہ کثیر ہے ورنہ قلیل ۔

مذکورہ اقوال میں  تطبیق یہ ہے کہ اگر خوشبو  کی مقدار کم ہو اور مکمل عضو پر لگالی جائے تو بھی دم واجب ہوگا، اور کامل عضو پر نہیں لگائی تو دم واجب نہیں ہوگا، صدقہ لازم ہوگا۔ گویاخوشبو کی مقدار کم ہو تو کامل عضو کا اعتبار ہوگا۔ اور اگر  خوشبو زیادہ ہے تو ایک چوتھائی عضو کا اعتبار ہے یعنی اس صورت میں ایک چوتھائی عضو پر خوشبو لگانے سے دم لازم آئے گا اور اس سے کم میں صدقہ لازم آئے گا۔

الفتاوى الهندية (1/ 240)
' فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ۔ كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا، والصحيح أن يوفق ويقال: إن كان الطيب قليلاً فالعبرة للعضو لا للطيب، حتى لو طيب به عضواً كاملاً يكون كثيراً يلزمه دم، وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيراً فالعبرة للطيب لا للعضو حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم، هكذا في محيط السرخسي والتبيين۔ هذا في البدن وأما الثوب والفراش إذا التزق به طيب اعتبرت فيه القلة والكثرة على كل حال، وكان الفارق هو العرف، وإلا فما يقع عند المبتلى، كذا في النهر الفائق'.

 المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 453)
' وقال في المحرم: إذا مس الطيب أو استلم الحجر فأصاب يده خلوق، إن كان ما أصابه كثير فعليه الدم، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، فقالوا: إذا طيب الساق أو الفخذ بكماله يلزمه الدم، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكثير فقالوا: إذا طيب رب الساق، والفخذ يلزمه الدم، وإن كان أقل من ذلك يلزمه الصدقة.
والفقيه أبو جعفر رحمه الله اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب، فقال: إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره بكفيه الناس، لكفين من ماء الورد، والكف من المسك أو الغالية، فهو كثير وما لا فلا، قال الشيخ الإمام شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده رحمه الله: إن كان الطيب في نفسه قليلاً، إلا أنه طيب عضواً كاملاً، فإنه يكون كثيراً، أو تكون العبرة في هذه الحالة للعضو، وإن كان الطيب في نفسه كثيراً لا يعتبر العضو مكانه سلك فيه طريق الاحتياط، وإن مس طيباً إن لم يلزق بيده شيء منه، فلا شيء عليه، وإن لزق بيده منه إن كان كثيراً يلزمه الدم، وإن كان قليلاً لا يلزمه الدم، ويكفيه الصدقة'.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں