بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حافظِ قرآن امام کی اقتدا میں عالم کا نماز ادا کرنا


سوال

ہماری مسجد میں ایک متعین امام ہیں، جو 1983ءسے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، ہماری مسجد کے خطیب صاحب ہیں جو اسی  حافظ قرآن امام کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے، اب ان کے بچے بڑے ہوگئے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ  میں  امام ہوں، میں خطیب ہوں، جب کہ امام حافظ قرآن متعین ہیں 1983 سے، درمیان میں کوئی معاملہ ہوا تو انتظامیہ نے فیصلہ بھی کیا کہ امام صاحب  ہیں،  لیکن اس کے باوجود خطیب کا کہنا یہ ہے کہ میں امام ہوں اور میری نماز ان کے پیچھے نہیں ہوتی، لوگوں میں بھی افواہ پھیلا رہے ہیں کہ آپ کی حافظ قرآن امام کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، ان کہنا یہ ہے کہ بس میں عالم ہوں میرے پیچھے نماز ہو گی۔ خطیب صاحب کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ خطیب صاحب کہتے ہیں کہ عالم کی موجودگی میں متعین امام نماز نہیں پڑھاسکتا ان کو مسائل کا پتہ نہیں ہے۔ حالانکہ انتظامیہ نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ امام وہی ہے جو ہیں۔

جواب

مذکورہ مسجد میں جو حافظ امام مستقل طور پر لوگوں کے باہمی اتفاق رائے سے مقرر ہیں،مذکورہ امام نماز کے مسائل سے بھی واقف ہوں تو  وہی امامت کے حق دار ہیں۔ خطیب صاحب کا یہ کہنا کہ میری نماز اس کے پیچھے نہیں ہوتی، درست نہیں ہے۔ خطیب صاحب کی نماز مذکورہ امام کی اقتدا  میں درست ہے۔

فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق مسجد کا مقرر امام ہی نماز پڑھانے کا حق دار ہوتا ہے بشرطیکہ قراءت اور مسائل نماز سے واقف ہو۔ بلاوجہ مذکورہ امام کو معزول کرنا جائز نہیں ہوگا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 559،ط:سعید):

"(و) أعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقًا.

قوله: (مطلقًا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه ۔(إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه) لعموم ولايتهما و صرح الحدادي بتقديم الوالي على الراتب (و المستعير والمستأجر أحق من المالك) لما مر."

الفتاوى الهندية - (1/83،ط:رشیدیہ کوئٹہ):

"دخل المسجد من هو أولى بالإمامة من إمام المحلة فإمام المحلة أولى، كذا في القنية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں