بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حادثے میں انتقال کرجانے کے غسل اور جنازہ کا حکم


سوال

میں ایک بحری جہاز پر کام کرتا ہوں ہمارے ساتھ ایسا ہوا کہ ہمارے ایک ساتھی کی ایکسیڈنٹ میں  موت ہوئی ۔ہم نے سوچا کہ اس کو گھر بھیجیں گے تو پتا نہیں کتنے دن لگیں گے؛ کیوں کہ آج ہم spain میں ہیں تو اس کو غسل دیتے ہیں اور جنازہ پڑھتے ہیں ۔لیکن جہاز کے جو ڈاکٹر تھے وہ بولے کہ نہیں اس کی موت ایکسیڈنٹ سے ہوئی ہے تو جب تک کنارے کی جو پولیس والے ہیں وہ اپنی کاروائی وغیرہ پورے نہیں کرتےہم اس کے جو کپڑے وغیرہ ہیں وہ اس سے نہیں نکال سکتے ؛ چوں کہ اس پر تو ہو سکتا دن لگے اور ہم نے آج یہاں سے روانہ ہونا ہے تو ہم نے اپنے طرف سے اس کو تیمم کروایا اور جنازہ پڑھا یا، یہ صحیح ہے یا اور کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ کیوں کہ ہم نے سوچا جب گھر پہنچے گا پتا نہیں کتنے دن ہوئے ہوں گے تو گھر والے پتا نہیں اس کو غسل دے پائیں  گے یا نہیں؟

جواب

میت کو غسل دینا میت کے حقوق میں سے ایک حق اور اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔بلاعذر میت کو تیمم کروانادرست نہیں، لہذا ایکسیڈنٹ حادثے میں انتقال کرنے والے شخص کے جسم کا اکثر حصہ اگر محفوظ تھا تو اسے غسل اور کفن دینے کے بعد اس پر جنازے کی نماز ادا کرنی چاہیے تھی، تاہم لاعلمی میں اگر میت کو تیمم کرواکے جنازہ پڑھ لیا، اور پھر اس کی میت کو اس کے گھر روانہ کردیاگیاتواب  گھر والوں پر غسل ،تکفین  اور جنازہ کی ادائیگی لازم ہے، آپ لوگوں کی طرف سے کروایاگیاتیمم اور جنازہ کافی نہیں۔ "فتاوی ہندیہ" میں ہے:

''ولو وجد أكثر البدن أو نصفه مع الرأس يغسل ويكفن ويصلى عليه، كذا في المضمرات. وإذا صلي على الأكثر لم يصل على الباقي إذا وجد ، كذا في الإيضاح . وإن وجد نصفه من غير الرأس أو وجد نصفه مشقوقاً طولاً، فإنه لا يغسل ولا يصلى عليه، ويلف في خرقة ويدفن فيها ، كذا في المضمرات.''۔ (4/409)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں