بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حاجی کے لیے مدینہ منورہ سے واپسی میں حج قران کی نیت کا حکم


سوال

کیاحاجی مدینہ منورہ جانے کے بعد حجِ قران کی نیت کرسکتاہے؟

جواب

حاجی اگر عمرہ کے افعال سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ گیا ہو تو بہتر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ واپس لوٹتے ہوئے حجِ افراد کا احرام باندھ کر آئے، اور اگر عمرے کا احرام باندھ کر آیا اور عمرے کے افعال ادا کرنے کے بعد حلال ہوگیا ، پھر ایامِ حج میں حج کا احرام باندھ کر حج کرلیا تو اس کا حجِ تمتع صحیح ہوگا، البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک حجِ تمتع کا اعتبار پہلے عمرے سے ہوگا۔  مدینہ منورہ سے واپسی میں حجِ قران کا احرام باندھنا ممنوع ہے، اس لیے کہ یہ شخص مکہ مکرمہ کے رہنے والوں کے حکم میں ہے اور حکماً مکی ہے۔

١- في الدر: "(كُوفِيٌّ) أَيْ آفَاقِيٌّ (حَلَّ مِنْ عُمْرَتِهِ فِيهَا) أَيْ الْأَشْهُرِ (وَسَكَنَ بِمَكَّةَ) أَيْ دَاخِلَ الْمَوَاقِيتِ (أَوْ بَصْرَةَ) أَيْ غَيْرِ بَلَدِهِ (وَحَجَّ) مِنْ عَامِهِ (مُتَمَتِّعٌ) لِبَقَاءِ سَفَرِهِ".

وفي الرد: "(قَوْلُهُ: أَيْ آفَاقِيٌّ) أَشَارَ بِهِ إلَى أَنَّ ذِكْرَ الْكُوفِيِّ مِثَالٌ وَأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ مَنْ كَانَ خَارِجَ  الْمِيقَاتِ لِأَنَّ الْمَكِّيَّ لَا تَمَتُّعَ لَهُ كَمَا مَرَّ (قَوْلُهُ: حَلَّ مِنْ عُمْرَتِهِ فِيهَا) لِأَنَّهُ لَوْ اعْتَمَرَ قَبْلَهَا لَايَكُونُ مُتَمَتِّعًا اتِّفَاقًا نَهْرٌ (قَوْلُهُ: أَيْ دَاخِلَ الْمَوَاقِيتِ) أَشَارَ إلَى أَنَّ ذِكْرَ مَكَّةَ غَيْرُ قَيْدٍ، بَلْ الْمُرَادُ هِيَ أَوْ مَا فِي حُكْمِهَا (قَوْلُهُ: أَيْ غَيْرِ بَلَدِهِ) أَفَادَ أَنَّ الْمُرَادَ مَكَانٌ لَا أَهْلَ لَهُ فِيهِ سَوَاءٌ اتَّخَذَهُ دَارًا بِأَنْ نَوَى الْإِقَامَةَ فِيهِ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ لَا كَمَا فِي الْبَدَائِعِ وَغَيْرِهَا، وَقُيِّدَ بِهِ لِأَنَّهُ لَوْ رَجَعَ إلَى وَطَنِهِ لَا يَكُونُ مُتَمَتِّعًا اتِّفَاقًا أَيْضًا إنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ نَهْرٌ (قَوْلُهُ: لِبَقَاءِ سَفَرِهِ) أَمَّا إذَا أَقَامَ بِمَكَّةَ أَوْ دَاخِلَ الْمَوَاقِيتِ فَلِأَنَّهُ تَرَفَّقَ بِنُسُكَيْنِ فِي سَفَرٍ وَاحِدٍ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَهُوَ عَلَامَةُ التَّمَتُّعِ.
وَأَمَّا إذَا أَقَامَ خَارِجَهَا فَذَكَرَ الطَّحَاوِيُّ أَنَّ هَذَا قَوْلُ الْإِمَامِ. عِنْدَهُمَا لَا يَكُونُ مُتَمَتِّعًا لِأَنَّ الْمُتَمَتِّعَ مَنْ كَانَتْ عُمْرَتُهُ مِيقَاتِيَّةً وَحَجَّتُهُ مَكِّيَّةً وَلَهُ أَنَّ حُكْمَ السَّفَرِ الْأَوَّلِ قَائِمٌ مَا لَمْ يَعُدْ إلَى وَطَنِهِ ". [الدر مع الرد :٢ / ٥٤١-٥٤٢]
٢- "فإن أحرم المكي بهما جميعاً، أو أدخل إحرام الحج على العمرة قبل طوافها، فلابد من رفض أحدهما، فرفض العمرة أولى بالاتفاق ... وعليه عمرة ودم الرفض ، وإن مضى فيهما جاز وأساء، وعليه دم الجمع".  [غنية الناسك ، ص: ٢٣٠، باب الجمع بين النسكين أو أكثر، فصل في الجمع المكروه بين عمرة وحجة، إدارة القرآن] 
 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144010200960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں