بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حائضہ عورت کا دستانے پہن کر قاعدہ یا قرآن پڑھنا


سوال

کیا عورت ایام کے دنوں میں ہاتھ کےاوپر دستانےپہن کر قاعدہ یاقرآن مجید پڑھ سکتی ہے؟

جواب

عورت  کے لیے ایام کے دنوں میں قاعدہ پڑھنا درست ہے، چاہے دستانے پہن کر  قاعدہ پکڑے یا بغیر دستانے کے پکڑے، کیوں کہ قاعدہ کو چھونے اور پڑھنے کے لیے طہارت شرط نہیں ہے، البتہ بہتر  اور افضل یہ ہے کہ وضو کر کے قاعدہ کو ہاتھ میں پکڑے۔  لیکن قاعدہ میں لکھی ہوئیں قرآن کی آیتیں پڑھنے کا حکم الگ ہوگا جو کہ آگے آرہا ہے۔

 ایام کے دنوں میں عورتوں کے لیے  تلاوت کی غرض سے قرآنِ پاک پڑھنا (خواہ ایک آیت ہی ہو) کسی صورت بھی جائز نہیں ہے، نہ چھو کر اور نہ ہی بغیر چھوئے،  اسی طرح تعلیم و تعلم کی غرض سے بھی  تسلسل کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا یاپڑھانا جائزنہیں ہے، البتہ تعلیم و تعلم کی غرض سے ایک ایک کلمہ علیحدہ علیحدہ کرکے پڑھنے یا پڑھانے کی گنجائش ہے۔

ایامِ حیض میں حائضہ عورت بوقتِ ضرورت قرآن مجیدکو ایسے کپڑے کے ساتھ چھو سکتی ہے جو اس نے پہنا نہ ہو، مثلاً: رومال وغیرہ سے جو بدن سے جدا ہو، لیکن دستانے چوں کہ ملبوس (پہنے ہوئے) ہوتے ہیں اور بدن سے جدا نہیں ہوتے؛ اس لیے  ہاتھ پر دستانے پہن کر اس سے قرآن پاک کو پکڑنا یا چھونا جائز نہیں ہے۔ قاعدے میں جس جگہ قرآن پاک کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو، اس جگہ کو بغیر حائل کے چھونا بھی جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 292)

''(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوباً بالفارسية في الأصح، (وإلا بغلافه) المنفصل، كما مر (وكذا) يمنع (حمله) كلوح وورق فيه آية.

 (قوله: وقراءة قرآن) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً كما قدمناه، وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور، كما قدمه المصنف، (قوله: بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئاً من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به، كما قدمناه عن العيون لأبي الليث، وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية، (قوله: ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه. وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر: أي والصحيح المنع، كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية، كما قدمناه عن القهستاني وغيره، وفي التفسير والكتب الشرعية خلاف مر، (قوله: إلا بغلافه المنفصل) أي كالجراب والخريطة دون المتصل كالجلد المشرز، هو الصحيح، وعليه الفتوى؛ لأن الجلد تبع له، سراج، وقدمنا أن الخريطة الكيس. أقول: ومثلها صندوق الربعة، وهل مثلها كرسي المصحف إذا سمر به؟ يراجع''۔

الفتاوى الهندية (1/ 38)

'' وإذا حاضت المعلمة فينبغي لها أن تعلم الصبيان كلمةً كلمةً، وتقطع بين الكلمتين، ولا يكره لها التهجي بالقرآن. كذا في المحيط.

ولا يكره قراءة القنوت في ظاهر الرواية. كذا في التبيين، وعليه الفتوى. كذا في التجنيس والظهيرية.

ويجوز للجنب والحائض الدعوات وجواب الأذان ونحو ذلك في السراجية.

(ومنها) حرمة مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه كالخريطة والجلد الغير المشرز، لا بما هو متصل به، هو الصحيح. هكذا في الهداية، وعليه الفتوى. كذا في الجوهرة النيرة.

والصحيح منع مس حواشي المصحف والبياض الذي لا كتابة عليه. هكذا في التبيين.

واختلفوا في مس المصحف بما عدا أعضاء الطهارة وبما غسل من الأعضاء قبل إكمال الوضوء، والمنع أصح. كذا في الزاهدي، ولا يجوز لهم مس المصحف بالثياب التي هم لابسوها، ويكره لهم مس كتب التفسير والفقه والسنن، ولا بأس بمسها بالكم. هكذا في التبيين''.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200994

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں