اگر جی پی فنڈ جمع کرنا آدمی کے اختیار میں ہو اور جمع کرنے سے پہلے ادارہ اس کے ساتھ پہلے سے فکس بھی کرے کہ ہم اس کو ڈبل کرکے واپس دیں گے یا مثلاً 40 پرسنٹ زیادہ دیں گے تو کیا یہ سود ہوگا کہ نہیں؟ اور اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا ملازم کے اختیار میں نہیں ہوتا، لیکن کمپنی پہلے سے فکس کرلے کہ ہم ڈبل دیں گے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جی پی فنڈ کی دو صورتیں ہیں: (1) اختیاری (2) جبری۔
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها". (البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام
(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر". (رد المحتار ج: 5، ص: 166، ط: سعيد)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فضل خال عن عوض بمعيار شرعي وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربًا مشروط ذلك الفضل لأحد المتعاقدين في المعاوضة". (الدر المختار ج:5، ص: 128/ 129، ط: سعيد)
بیمہ کی شرعی حیثیت میں ہے:
’’ پنجم: مقررہ قسط والا بیمہ یعنی وہ کاروباری بیمہ جسے بیمہ کمپنیاں کرتی ہیں اس تعاون وتضاون کے مقاصد کو پورا نہیں کرتا جس سے اسلام نے جائز قرار دیا ہے، اس لیے یہ بیمہ کمپنیاں جو کاروبار کرتی ہیں، وہ مالی معاوضہ والے معاملات ہیں جن میں دھوکہ جوا اور سود شامل ہوگیا ہے، اور معاوضہ والے معاملات میں جب یہ باتیں شامل ہوجائیں تو وہ معاملات باطل ہوجاتے ہیں‘‘۔ (بیمہ کی شرعی حیثیت، ص: 201، ط: ادارہ تحقیقات اسلامی) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201391
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن