بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز کی شرعی حیثیت


سوال

ہمارے ہاں کچھ اہلِ حدیث دوست ہیں جو کہتے ہیں کہ جہیز کا سرے سے کوئی ثبوت ہی نہیں۔

 شریعت میں جہیز ہے یا نہیں؟  اگر ہے تو  قرآن وحدیث اور حضرات فقہاء ومحدثین کے حوالہ جات کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں!

جواب

                        نکاح انسانی فطرت  کے ایک ضروری تقاضے کو جائز طریقے  سے پورا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے،  اور اگر اس جائز   طریقے پر رکاوٹیں عائد کی  جائیں  یا اس کو مشکل بنایا جائے تو  اس کا  لازمی نتیجہ بے راہ روی کی  صورت میں نمودار ہوتا ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اپنی فطری ضرورت پوری کرنے کے لیے  جائز راستے بند پائے گا تو اس کے دل میں ناجائز راستوں کی طلب پیدا ہوگی،  جو انجامِ  کار معاشرے کے بگاڑ کا ذریعہ بنے گی۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر کوئی ایسا شخص تمہارے پاس رشتے کا پیغام بھیجے جس کی دِین داری اور اَخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کا نکاح کرادو، اگر ایسے نہیں کروگے تو زمین میں بڑا فتنہ اور وسیع فساد ہوجائے گا‘‘۔ (رواہ الترمذی)

         اسلام نے نکاح کو جتنا آسان  بنایا ہے موجودہ معاشرتی  ڈھانچے نے  اسے اتنا ہی مشکل  بنادیا ہے، نکاح کے بابرکت  بندھن پر  بے شمار  رسومات، تقریبات،  اور فضول اخرجات کے   ایسے  بوجھ لاد  دیے گئے ہیں کہ ایک غریب بلکہ متوسط آمدنی والے  شخص کے لیے بھی وہ ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا  ہے اور اس میں اکثر اور بیش تر  ایسی رسومات  کا  ارتکاب کیا جاتا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،  بلکہ وہ    ہندوانہ  رسمیں ہیں،  اور غیر اقوام سے   مشابہت  کی ممانعت  بے شمار احادیث میں وارد ہوئی،  حدیثِ مبارک  میں ہے: " سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو" ۔

"وعن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن أعظم النكاح بركةً أيسره مؤنةً» . رواهما البيهقي في شعب الإيمان". (2/268 مشکاۃ، کتاب النکاح،  ط؛ قدیمی)

نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے ۔

اور  ’’جہیز‘‘  ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں،اگروالدین اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہے تو یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں، بلکہ یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے، ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔

لیکن شریعت میں کہیں اس کی حوصلہ افزائی  نہیں کی گئی، نہ ہی کسی روایت میں اس کا تذکرہ یا ترغیب ملتی ہے۔ جہاں تک حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے سلسلہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحب زادی فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا کو جہیز کے طور پر یہ چیزیں دی تھیں:  ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔

" عن علي، رضي الله عنه قال: «جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر»". (سنن النسائي (6/ 135)

تو اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب مدظلہ ’’معارف الحدیث‘‘  میں تحریر فرماتے ہیں : 

”اکثر اہلِ علم اس حدیث کا یہی مطلب سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ چیزیں اپنی صاحب زادی کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیزکے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج، بلکہ تصور بھی نہیں تھا۔ اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا۔ سیدہ فاطمہؓ کے علاوہ دوسری صاحب زادیوں کے نکاح کے سلسلہ میں کہیں کسی قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا۔ رہی بات حدیث کے لفظ ’’جهّز‘‘ کا مطلب، تو اس کے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں، بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں، حضرت فاطمہ ؓ کے لیے حضور ﷺنے ان چیزوں کاانتظام حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے ان ہی کی طرف سے اور ان ہی کے پیسوں سے کیا تھا؛ کیوں کہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھرمیں نہیں تھیں، روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے، بہرحال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا‘‘۔ (معارف الحدیث،7/660 ، ط: دار الاشاعت)

بہر صورت اگر اس کو جہیز بھی تسلیم کرلیں تو  بس وہ وہی بنیادی ضرورت کی چیزیں تھیں جو ان کے گھر میں موجود نہیں تھیں، جن کی ان کو ضرورت تھی، تو  آپ ﷺ نے اپنی بیٹی کو اس کا انتظام کرکے دے دیا۔ لہذا :

1۔۔  اگر والدین بغیر جبر و اکراہ کے اور بغیر نمود ونمائش کے اپنی حیثیت کے مطابق بطیبِ خاطر لڑکی کو تحفہ دیتے ہیں تو  اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور لڑکی اس کی مالک ہوگی۔

2۔۔  اگر جہیز کے نام پر لڑکے والوں کا مطالبہ کرنے پر یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے محض رسم پوری کرنے کے لیے لڑکے والوں کو سامان دینا پڑے اور مذکورہ سامان دینے میں بچی کے والدین کی رضامندی بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکے والوں کے لیے ایسا جہیز لینا ناجائز ہے۔ اور اگر ایسا جہیز بچی کے حوالہ کر بھی دیا گیا تو بچی ہی اس کی مالک ہوگی اور اس کی اجازت کے بغیر مذکورہ جہیز کے سامان کو لڑکے والوں کے لیے استعمال کرنا حلال نہیں ہوگا۔

3.. لڑکے والوں کی طرف سے "جہیز"  دینے کادباؤ یا جہیز کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔

حوالہ جات:

"الجهاز بالفتح، والكسر لغة قليلة، وهو اسم… لما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع". ( الموسوعة الفقهية الكويتية، ۱۶/۱۶۵، دارالسلاسل)

"ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها". (الموسوعة الفقهية الكويتية ، ۱۶/۱۶۶، دار السلاسل)

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه».

(" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ۵/۱۹۷۴، دار الفكر)

"(منها): ما ترجم له المصنّف -رحمه اللَّه تعالى-، وهو مشروعيّة تجهيز الرجل. بنته بما تحتاج إليه، مما تيسر له. (ومنها): ما كان عليه صلى اللَّه عليه وسلم أيضًا، من العناية ببناته، والقيام بتربيتهنّ، وتزويجهنّ، وتجهيزهنّ لأزواجهنّ بما جرت به العادة، حتى تكون الألفة والمحبة بين الزوجين دائمة؛ لأن الرجل إذا لم يكن للزوجة جهاز ربما يتبرّم، ويتثاقل منها، ولا يحسن عشرتها، ولا يريد أن تطول صحبتها له. (ومنها): ما كان عليه النبيّ صلى اللَّه عليه وسلم من الزهد في الدنيا، والاكتفاء بالقليل منها، ولو شاء لكانت الجبال له فضة وذهبًا. واللَّه تعالى أعلم بالصواب، وإليه المرجع والمآب". (ذخيرة العقبى في شرح المجتبى (28/ 154)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200648

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں