بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہری قراءت کی حد


سوال

ایک مسجد میں ہم چار ساتھیوں نے نمازِ عشاء با جماعت ادا کی،  ایک امام بنا،  باقی تین مقتدی،  پہلی رکعت میں امام صاحب نے قراء ت اتنی آواز سے کی کہ ہم تین مقتدیوں میں سے دو کو فقط آواز آتی رہی، مگر سورت کی تعیین نہیں کر سکے۔ جب کہ ایک مقتدی نے بتایا کہ فلاں سورت قراءت ہوئی۔ اور دوسری رکعت میں امام صاحب نے قراءت کی یا نہیں کی، ہم تینوں مقتدیوں کو کچھ معلوم نہیں۔ بعد الصلاۃ امام صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے قراء ت سراً کی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، میں نے جہراً قراء ت کی ہے۔ مگر ارد گرد روڈ پر ٹریفک کے شور سے آپ مقتدیوں کو آواز نہ آئی ہو گی۔ اب ہماری نماز کا کیا حکم ہے؟ فقہ کی روشنی میں واضح فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ جن نمازوں میں جہری قراءت کا حکم ہے ان میں جہری (بلند آواز) قراءت کی (کم سے کم) حد یہ ہے کہ امام کی قراءت کو کوئی دوسرا شخص سن لے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"قال الفقيه أبوجعفر والشيخ الإمام أبوبكر محمد بن الفضل: أدنى الجهر أن يسمع غيره، وأدنى المخافتة أن يسمع نفسه، وعلى هذا يعتمد. كذا في المحيط. وهو الصحيح، كذا في الوقاية والنقاية. وبه أخذا عامة المشايخ، كذا في الزاهدي". (الفتاوى الهندية ، كتاب الصلاة الفصل الثاني في واجبات الصلاة 1/72، ط: رشيدية)

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب امام جہری قراءت کا اقرار کررہا ہے اور ایک مقتدی نے جہری قراءت کی تصدیق کرتے ہوئے پہلی رکعت کی قراءت میں سورت کی تعیین بھی کردی تو ٹریفک کے شور کی وجہ سے نمازیوں نے قراءت نہ سنی ہو تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑا، سب کی نماز درست ہوگئی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200938

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں