اگر کوئی قرآن کی قسم کھا جاتا ہے کسی حساب کے بارے میں، لیکن پتا ہو کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو اس کا کیا کرنا چاہیے؟
اگر کوئی شخص کسی بارے میں قرآن کی قسم کھالے اور پتا ہو کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے تو اس کا اعتبار کرنا ضروری نہیں ہے، اس لیے اس کی قسم کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اسے سمجھانا چاہیے کہ جھوٹی قسم کھانا بہت سخت گناہ اور عذاب کا باعث ہے؛ اس لیے جھوٹی قسم کھانے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
البتہ اگرمجلسِ قضا (عدالت یا پنچائیت وغیرہ) میں مدعی کے پاس گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعا علیہ حق کے ثبوت سے انکار کرتے ہوئے قسم کھالے اور جج یا منصف وغیرہ کو اس کی قسم کے جھوٹا ہونے کا ذاتی طور پر علم ہو، لیکن اس کے جھوٹا ہونے پر کوئی ثبوت نہ ہو تو پھر جج کو اس کی قسم کا عتبار کرتے ہوئے مدعی کے دعویٰ کو خارج کرنا پڑے گا۔
تاہم اس صورت میں جھوٹی قسم کی وجہ سے مدعی کا اگر نقصان ہوا تو وہ روزِ قیامت اسے دینا ہوگا، نیز جانتے بوجھتے جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سرِ فہرست ہے، اس لیے بہرصورت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ایسے شخص کی فہمائش کی کوشش کرکے اسے جھوٹی قسم سے باز رکھا جائے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201601
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن