زید ایک جواکھیلنے والے سے کچھ رقم ادھار لے کر اپنے کاروبار میں صرف کرنا چاہتا ہے. اور اس جوا باز کے پاس کل رقم جوے ہی کی ہے تو کیا زید کے لیے وہ رقم لے کر استعمال کرنا جائز ہوگا؟
جوے سے حاصل کردہ آمدنی حرام ہے، اس لیے اگر اس جوے باز کے پاس کل رقم حرام کی ہے، حلال رقم موجود نہیں ہے تو زید کے لیے جوے کی رقم اس سے ادھار لینے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر ادھار لے لیا تو واپس کردےاور اگر خرچ کردیا تو اتنی رقم جلد از جلد کو لوٹا دے۔
"الحرام ینتقل فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلینا ملکه وصح بیعه، لکن لایطیب له ولا للمشتري منه". (درمختار)
وفي الشامیة:
"(قوله: الحرام ینتقل) أي تنتقل حرمته، وإن تداولته الأیدي وتبدلت الأملاک، ویأتي تمامه قریباً، و(قوله: ولا للمشتري منه) فیکون بشرائه منه مسیئاً؛ لأنه ملکه بکسب خبیث، وفي شرائه تقریر للخبث، ویؤمر بما کان یؤمر به البائع من رده علی الحربي؛ لأن وجوب الرد علی البائع إنما کان لمراعاة ملک الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنی قائم في ملک المشتري کما في ملک البائع الذي أخرجه". (الدرالمختار مع الشامي، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ۵/ ۹۸) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144007200032
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن