بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جو رقم والد نے اولاد کو تجارت کے لیے دی ہو اس کی زکات کا حکم


سوال

جو سرمایہ اولاد کو کاروبار کے لیے دیا ہو  اس کے ملنے تک اس پر زکات ہے؟

جواب

جو سرمایہ   اولاد کو کاروبار کے  لیے بطورِ قرض  دیا ہو  (مالک بناکر نہ دیا ہو) اگر قابلِ زکاۃ مال ہے ( نقدی، مالِ تجارت یعنی جسے فروخت کرکے نفع کمایا جائے وغیرہ)  اور بقدرِ نصاب ہے یا  دوسرے مال کے ساتھ ملاکر نصاب کے برابر ہوجائے تو اس کی زکات نکالنا والد پر لازم ہے،  البتہ ادائیگی میں اختیار ہے کہ ہر سال نکالتا رہے یا جب وصول ہوجائیں ایک ساتھ  گزشتہ سالوں کی ادا کرے۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"واعلم ان الدیون عندالامام ثلاثۃ،قوی ومتوسط وضعیف،فتجب زکاتھااذا تم نصاباوحا ل الحول لکن لافورابل عند قبض اربعین درھما من الدین القوی کقرض وبدل مال تجارۃ...". [شامی،کتاب الزکوۃ،باب زکوۃ الغنم ،ج:۲۔ص:۵۰۳،ط:سعید]فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں