جو سرمایہ اولاد کو کاروبار کے لیے دیا ہو اس کے ملنے تک اس پر زکات ہے؟
جو سرمایہ اولاد کو کاروبار کے لیے بطورِ قرض دیا ہو (مالک بناکر نہ دیا ہو) اگر قابلِ زکاۃ مال ہے ( نقدی، مالِ تجارت یعنی جسے فروخت کرکے نفع کمایا جائے وغیرہ) اور بقدرِ نصاب ہے یا دوسرے مال کے ساتھ ملاکر نصاب کے برابر ہوجائے تو اس کی زکات نکالنا والد پر لازم ہے، البتہ ادائیگی میں اختیار ہے کہ ہر سال نکالتا رہے یا جب وصول ہوجائیں ایک ساتھ گزشتہ سالوں کی ادا کرے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"واعلم ان الدیون عندالامام ثلاثۃ،قوی ومتوسط وضعیف،فتجب زکاتھااذا تم نصاباوحا ل الحول لکن لافورابل عند قبض اربعین درھما من الدین القوی کقرض وبدل مال تجارۃ...". [شامی،کتاب الزکوۃ،باب زکوۃ الغنم ،ج:۲۔ص:۵۰۳،ط:سعید]فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106201288
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن