بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ گاڑی پر اٹھانا، غیر محرم کا عورت کو قبر میں اتارنا


سوال

 1: ہمارے یہاں عام طور پر یہ صورت پیش آتی ہے کہ عورت کا انتقال ہوتا ہے اور اس کے  محارم قبر کے اندر اترنے کو تیار نہیں ہوتے یا وہ محارم مرد عمر رسیدہ ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں مرحومہ عورت کا وزن اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ محارم مرد میت کو قبر میں اتارنے کے   لیے کافی نہیں ہوتے تو  دریافت طلب یہ ہے کہ اس جیسی صورتِ  حال میں اجنبی مرد میت کو قبر میں اتار سکتے  ہیں یا نہیں ؟

 2: ہمارے محلہ  سے  قبرستان  1.8 کلو میٹر دور ہے،  اب ہمارے یہاں میت کو ٹرک جیسی گاڑی میں لے جانے کا رواج ہو گیا ہے ۔ کچھ فاصلہ تک پیدل چل کر کندھوں پر جنازہ لے جایا جاتا ہے،  پھر اس گاڑی میں جنازہ رکھ کر دوسرے لوگ بھی اس میں سوار ہوتے ہیں، اس طرح قبرستان پہنچایا جاتا ہے ۔ تو اس طرح گاڑی پر جنازہ لے جانا جائز ہے یا نہیں ؟ نیز سردی گرمی بارش کے موسم اسی طرح رات دن کے وقت اور رمضان میں روزے کی حالت میں جنازہ لے جانے کے اعتبار سے اگر حکم میں فرق پڑتا ہو تو  واضح کرنے کی درخواست ہے۔

نوٹ: اس طرح گاڑی پر لے جانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں شہروں میں اس زمانہ میں روز مرہ کی زندگی میں لوگ بالکل پیدل چلنے کے عادی نہیں رہے، ہر جگہ بلکہ مسجد بھی سکوٹر بائک  لے کر ہی جاتے ہیں تو اس وجہ سے لوگوں کو پیدل چل کر جنازہ لے جانا بہت شاق گزرتا ہے؛  لہذا اگر کبھی پیدل چل کر قبرستان تک جنازہ لے جایا جائے، تب بھی بعض بلکہ اکثر کندھا دے کر سکوٹر وغیرہ پر قبرستان پہنچ جاتے ہیں اور جنازہ کو لے جانے والے بہت کم رہ جاتے ہیں ۔اس امر کو بھی ملحوظ رکھ کر جواب مرحمت فرمانے کی گزارش ہے۔

جواب

1. بہتر یہ ہے کہ عورت کو اس کے محارم ہی قبر میں اتاریں، اگر محارم نہ ہوں یا وہ کافی نہ ہوں یا وہ ضعیف ہوں تو اجنبی مرد عورت کو  قبر میں اتارسکتا ہے۔ 

الفتاوى الهندية  (4 / 476):

 وَذُو الرَّحِمِ الْمُحَرَّمُ أَوْلَى بِإِدْخَالِ الْمَرْأَةِ مِنْ غَيْرِهِمْ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ. وَ كَذَا ذُو الرَّحِمِ غَيْرُ الْمُحَرَّمِ أَوْلَى مِنْ الْأَجْنَبِيِّ؛ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَلَا بَأْسَ لِلْأَجَانِبِ وَضْعُهَا، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ."

2.اگر قبرستان دور نہ ہو اور کوئی عذر نہ ہو تو سنت یہ ہے کہ جنازے کو   چار آدمی اٹھاکر  قبرستان لے جائیں، (یعنی چارپائی کے چاروں پایوں کو الگ الگ آدمی پکڑیں، نہ  کہ آگے ایک شخص کھڑے ہوکر دونوں پائے اپنے دائیں بائیں کاندھے پر رکھے، اور ایک شخص پچھلے دونوں پائے اپنے دائیں اور بائیں کاندھے پر رکھے،) سواری اور گاڑی وغیرہ پر لے جانا مکروہ ہے، لیکن اگر قبرستان دور ہو یا کوئی عذر ہو اور جنازہ اٹھانے والوں کو جنازہ لے کر اتنی دور چلنا مشکل ہو تو مجبوری کی حالت میں میت کو گاڑی یا ایمبولینس میں لے جانا جائز ہے ، اور گاڑی میں رکھنے کے  لیے جتنے آدمیوں کی ضرورت ہو اتنے آدمی اٹھا کر رکھ  سکتے ہیں، لیکن جنازے کو گاڑی تک لے جانے اور اٹھانے والے چار افراد ہونے  چاہییں، تاکہ سنت کے مطابق عمل ہو ، نیز جنازے کے ساتھ چلنے والوں کا قبرستان دور ہونے کی صورت میں سوار ہوکر ساتھ جانا جائز ہے،البتہ  سوار ہوتے ہوئے جنازے سے آگے چلنا مکروہ ہے۔

حاشية على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  (1 / 399):

"و المعنى أن السنة في حملها أن يحملها رجال أربعة ... قوله: (و يكره الخ) الأولى عبارة الشرح حيث قال ولذا يكره على الظهر والدابة أي للتشبيه بحمل الأمتعة يكره الخ وعبارة بعض الأفاضل بعد ذكر حمل الأربعة فيكره أن يكون الحامل أقل من ذلك أو أن يحمل على الدابة أو الظهر لعدم الإكرام إلا إذا كان رضيعًا أو فطيمًا أو فوق ذلك قليلًا فلا بأس أن يحمله واحد على يديه أو في طبق راكبًا وإلا فهو كالبالغ ا هـ قوله: (بلا عذر) أما إذا كان عذر بأن كان المحل بعيدا يشق حمل الرجال له أو لم يكن الحامل إلا واحدًا فحمله على ظهره فلا كراهة إذن.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 206):

"وَ ذَكَرَ الأسبيجابي: وَ لَا بَأْسَ بِأَنْ يَذْهَبَ إلَى صَلَاةِ الْجِنَازَةِ رَاكِبًا غير أَنَّهُ يُكْرَهُ له التَّقَدُّمُ أَمَامَ الْجِنَازَةِ بِخِلَافِ الْمَاشِي اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں