بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنات کے علاج کے لیے کسی باطل عقیدہ والے شخص سے رابطہ


سوال

1۔  جادو کے توڑ اور جنات کا قبضہ چھڑانے کے لیے شیعہ حضرات سے رابطہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

2۔ اگر کوئی شیعہ حضرات سے دم درود کروائے تو ان کے ایمان اور عقیدہ میں فرق آ تا ہے یا نہیں؟

جواب

دیگر  علاج ومعالجہ کی طرح عملیات اور تعویذات بھی علاج کی ایک قسم ہے، بوقتِ ضرورت یہ ذریعہ علاج اختیار کیا جاسکتاہے، تاہم اس کے لیے کسی صحیح العقیدہ شخص کا انتخاب کیا جائے؛ تاکہ کسی قسم کے غیرشرعی امور کا ارتکاب نہ ہو اور  علاج کروانے والے کا عقیدہ خطرے میں نہ پڑے. تعویذات اور عملیات کے ذریعے علاج کرنے کی جو مندرجہ ذیل  شرائط ہیں، اس کی رعایت کے ساتھ  علاج کرے:

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ،  (۴)  عملیات کرنے ولا علاج سے واقف اور  ماہر ہو، فریب نہ کرتا ہو۔ (۴) علاج کرنے والا خود بھی کسی غیرشرعی امر کا ارتکاب نہ کرے اور نہ ہی مریض سے کروائے، مثلاً: اجنبیہ عورتوں سے اختلاط و بے پردگی، یا مستقبل کے حوالے سے یا پوشیدہ امور معلوم کرنے کا دعویٰ، وغیرہ۔(5) اس کے علاج سے متاثر ہوکر  علاج کروانے والے کے عقیدے کے  خراب ہونے کا خدشہ نہ ہو۔

   لہٰذا اگر  کوئی عامل   تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھتا ہو  یا ا نہیں مؤثرِ حقیقی  سمجھتا  تو  ایسے عامل سے علاج کروانا جائز نہیں، خواہ  صحٰیح العقیدہ  کوئی شخص ایسا علاج کرے۔ آج کل اس سلسلے میں شرعی احکام اور شرائط کی رعایت نہیں رکھی جاتی، پوشیدہ اور مستقبل کی خبریں بتانے کے دعوے کیے جاتے ہیں، اور ایسے افراد کے پاس جانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، نیز دھوکا دہی بھی عام ہے؛ لہٰذا کوشش یہی ہونی چاہیے کہ عاملین کے پاس جایا ہی نہ جائے، اگر شدید ضرورت ہو تو  بھی مکمل تحقیق اور تصدیق و اطمینان کے بغیر کسی کے پاس نہیں جانا چاہیے۔

درج بالا شرائط اور تفصیل کی روشنی میں آپ اپنے سوال کا جواب معلوم کرسکتے ہیں۔

صحيح مسلم میں ہے:

’’عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا بأس بالرقی مالم یکن فیه شرك، ط: دار إحیاء التراث العربي)

سنن أبي داؤد میں ہے:

’’عن أبي سعید الخدري أن رهطاً من أصحاب النبي صلی الله علیه وسلم انطلقوا في سفرة سافروها، فنزلوا بحي من أحیاء العرب، فقال بعضهم: إن سیدنا لدغ، فهل عند أحد منکم شيء ینفع صاحبنا؟ فقال رجل من القوم: نعم، والله إني لأرقي، ولکن استضفناکم، فأبیتم أن تضیفونا، ما أنا براق حتی تجعلولي جعلاً، فجعلوا له قطیعاً من الشاء، فأتاه، فقرأ علیه أم الکتاب ویتفل حتی برأ کأنما نشط من عقال، قال: فأوفاهم جعلهم الذي صالحوهم علیه، فقالوا: اقتسموا، فقال الذي رقی: لاتفعلوا حتی نأتي رسول الله صلی الله علیه وسلم فنستأمره، فغدوا علی رسول الله صلی الله علیه وسلم فذکروا له، فقال رسول الله صلی الله علیه وسلم: من أین علمتم أنها رقیة؟ أحسنتم، اقتسموا واضربوا لي معکم بسهم‘‘. (سنن أبي داؤد، کتاب الطب، باب کیف الرقی؟ (ص:۵۴۴) ط: میر محمد کراچی)

وفي هامشه:

’’قال العیني: کأنه أراد المبالغة في تصویبه إیاهم. فیه جواز الرقیة، وبه قالت الأئمة الأربعة، وفیه جواز أخذ الأجرة. قال محمد في الموطأ: لابأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر الله تعالی، فأما ماکان لایعرف من الکلام فلاینبغي أن یرقی به، انتهی.‘‘

مرقاة المفاتیحمیں ہے:

’’وأما ما كان من الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها‘‘. (7 / 2880، رقم الحدیث:4553، الفصل الثانی، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت)

وفیه أیضاً:

’’(أو تعلقت تميمةً) : أي: أخذتها علاقةً، والمراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها، فإن القسم الذي اختص بأسماء الله تعالى وكلماته غير داخل في جملته، بل هو مستحب مرجو البركة عرف ذلك من أصل السنة، وقيل: يمنع إذا كان هناك نوع قدح في التوكل، ويؤيده صنيع ابن مسعود - رضي الله عنه - على ما تقدم، والله أعلم‘‘. (7 / 2881، رقم الحدیث:4553، الفصل الثاني، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت)

فتاوی شامیمیں ہے:

’’[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك؛ إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية؛ لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان: أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمةً فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم، وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى. وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه»، قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار‘‘. (6 / 363، کتاب الحظر والإباحة ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں