بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنابت کی حالت میں امامت کرانے والا کیا کرے؟


سوال

میرے ایک دوست نے کمپنی میں جماعت کی امامت کروادی، جب کہ اُس پر غسل واجب تھا، اب وہ پشیمان ہے،  اِس بات کو تقریباً  تین سال گزر چکے ہیں،  وہ کمپنی بھی چھوڑ چکا ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتا،  اب وہ کیا کرے ؟ ‎

جواب

مذکورہ صورت میں آپ کے دوست پر ان لوگوں کو اطلاع کرنا لازم ہے، جنہوں نے ان کی امامت میں نماز ادا کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس سے ان کی عزت گھٹے گی نہیں، بلکہ  بڑھے گی، کیونکہ یہ عمل اللہ تعالی کی رضاجوئی کے جذبے سے اور اس ذات کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ ہوگا۔  لہذا آپ کے دوست کو چاہیے کہ دل پر پتھر رکھ کران  لوگوں میں جن کو اطلاع پہنچائی جا سکتی ہو ، انہیں نماز لوٹانے کی اطلاع کرے۔ 

"حدثنا محمد بن فضيل، حدثنا الأعمش، عن رجل، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الإمامضامن، والمؤذن مؤتمن، اللهم أرشد الأئمة، واغفر للمؤذنين ". [مسند أحمد :١٢/ ٨٩، رقم الحديث: ٧١٦٩] 

قوله - صلى الله عليه وسلم - «الإمام ضامن» معناه تتضمن صلاته صلاة القوم وتضمين الشيء فيما هو فوقه يجوز وفيما هو دونه لا يجوز وهو المعنى في الفرق، فإن الفرض يشتمل على أصل الصلاة والصفة، والنفل يشتمل على أصل الصلاة فإذا كان الإمام مفترضا فصلاته تشتمل على صلاة المقتدي وزيادة فصح اقتداؤه به وإذا كان الإمام متنفلا فصلاته لا تشتمل على ما تشتمل عليه صلاة المقتدي فلا يصح اقتداؤه به لأنه بنى القوي على أساس ضعيف.[المبسوط للسرخسي: ١/ ١٣٧] فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144105200356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں