بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی اذان ثانی کا جواب


سوال

جمعہ کے روز اذانِ خطبہ کے دوران چپ رہے یا جواب دے؟ کسی نے مجھے کہا بخاری میں ہے کہ :حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جواب دیتے ہوئے دیکھا، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

جمعہ کے دن اذان ثانی کا جواب زبان سے نہیں دیناچاہیے،البتہ دل میں جواب دے دے تو درست ہے،چناں چہ فتاویٰ شامی میں ہے:قال وينبغي أن لا يجيب بلسانه اتفاقا في الأذان بين يدي الخطيب۔(1/399باب الاذان)آپ نے جس حدیث سے متعلق دریافت کیاہے وہ حدیث بخاری شریف ،کتاب الجمعۃ میں موجود ہے،اس حدیث سے استدلال کے متعلق مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :'' جوحضرات اذان بین یدی الخطیب کے جواب کوجائز یالازم کہتے ہیں، وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ: انہوں نے منبرپراذان کوسن کر جواب دیا اورفرمایا کہ: حضرت نبی اکرمﷺ نے بھی جواب دیاتھا۔یہ حدیث شریف بخاری شریف میں بھی مذکورہے۔اورمولانا عبدالحی  صاحب رحمہ اللہ نے بھی اس سے استدلال کیاہے،مگر احقر کے خیال ناقص میں اس کا محمل امام ہے،بقیہ حاضرین نہیں۔امام کو خطاب وکلام،امر بالمعروف نہی عن المنکر کابھی حق ہےمگر دوسروں کے لیے تویہ ہے کہ «اذا قلت لصاحبک انصت فقد لغوت»اس لیے وہ « اذا خرج الامام فلاصلاۃ ولاکلام » کے  پابند رہیں۔ بدائع الصنائع میں ہے کہ :نفسِ خروجِ امام بمنزلہ شروع فی الخطبہ کے ہے،  یہی اقرب معلوم ہوتاہے۔اس مسئلہ پرمستقل رسالہ بھی ہے جس کانام ہے  « العطر العنبری فی جواب الاذان المنبری »(فتاویٰ محمودیہ 8/326)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143901200048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں