بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی اذانِ اول پر کاروبار بند کرنے کا حکم


سوال

جمعہ کی اذانِ اوّل سےحرمتِ بیع کیسے ثابت ہے؟ قرآنِ کریم کی جس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے، اُس کا مدلول اذانِ ثانی تو واضح ہے،  لیکن اذانِ اوّل کیسے ہے؟

جواب

قرآنِ کریم میں سورۂ  جمعہ کی آیت نمبر (۹) میں اللہ جل شانہ نے نمازِ جمعہ کی اذان پر خرید وفروخت اور کاروبار بند کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم میں اذان کے بعد کاروبار کرنے کی صاف ممانعت ہے، اسی  لیے جمعہ کی اذان کے بعد خرید وفروخت مکروہِ  تحریمی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جمعہ کے  لیے ایک ہی اذان دی جاتی تھی، یہی طریقہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے دور میں بھی جاری رہا،اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ زیادہ ہوگئے، ہجوم بڑھنے  لگا ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے  "زوراء"  (بازار میں واقع ایک مکان) میں نماز جمعہ کے  لیے ایک زائد اذان دینے کا حکم صادر فرمایا، اور  اس حکم کو اس وقت موجود   تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قبول کیا، اور اس کے بعد  سے تاحال یہی عمل امت  میں جاری ساری ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بالاتفاق تیسرے خلیفہ راشد ہیں، اور رسول کریم ﷺ نے جہاں اپنی سنت کی پیروی کا حکم فرمایا ہے، وہاں خلفاء راشدین کی اتباع کی بھی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کاارشاد مبارک ہے:

«... فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ».

(سنن أبي داود: كتاب السنة باب في لزوم السنة، رقم: 4607، 4/200، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: ’’۔۔ تم پر لازم ہے کہ میرے اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کو لازم جانو اور اسی طریقہ پر بھروسہ رکھو اور اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑے رہو۔

(مظاہر حق: ۱/۲۰۵، دار الاشاعت)

چنانچہ حضرت مسلم بن یسارؒ، حضرت ضحاکؒ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اور دیگر حضرات تابعین زوال کے وقت سے ہی خرید وفروخت سے منع فرماتے تھے، اور جمعہ کی پہلی اذان زوال کے وقت ہی دی جاتی ہے؛  لہذا جمعہ کی پہلی اذان (جب کہ زوال کے بعد دی گئی ہو) ہوتے ہی خرید وفروخت ناجائز ہے۔

نیز خرید وفروخت کی حرمت پہلی اذان سے متعلق ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ قرآنِ  کریم میں جمعہ کی اذان پر بیع سے روکا گیا ہے، اور اذان کا مقصد  اعلام ہے ، یعنی اطلاع دینا اور باخبر کرنا، اور یہ مقصد دوسری اذان کی نسبت پہلی اذان سے زیادہ اچھی طرح حاصل ہوتا ہے؛  کیوں کہ دوسری اذان تو مسجد کے اندر منبر کے  سامنے دی جاتی ہے، جس کو صرف مسجد میں حاضر نمازی ہی سن سکتے ہیں، جب کہ پہلی اذان مینار پر یا ایسی جگہ پر دی جاتی ہے جہاں سے ہر ایک کو سنائی دے، اور لوگوں کو نماز کی اطلاع ہو۔

نیز اگر دوسری اذان پر نمازی مسجد میں پہنچیں تو ان کی سنتیں بھی نکل جائیں گی اور (مکمل) خطبہ بھی نہیں مل سکے گا، بلکہ اگر کسی کا گھر مسجد سے دور ہے تو ایسی صورت میں تو شاید اس کی نماز جمعہ بھی فوت ہوجائے۔ خلاصہ یہ کہ حرمت بیع اور وجوب السعی الی الجمعہ، دونوں امور اذان اول سے ہی متعلق ہوں گے، نہ کہ اذان ثانی سے۔

معارف القرآن میں ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوْا الْبَيْعَ‌ ذٰ لِكُمْ خَيْرٌ لَّـكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۞

ترجمہ:  اے ایمان والو ! جب اذان ہو نماز کی جمعہ کے دن تو دوڑو اللہ کی یاد کو اور چھوڑ دو خریدو فروخت یہ بہتر ہے تمہارے حق میں اگر تم کو سمجھ ہے۔

خلاصہ تفسیر :

اذان جمعہ شروع میں صرف ایک ہی تھی جو خطبہ کے وقت امام کے سامنے کہی جاتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں پھر صدیق اکبر اور فاروق اعظم کے زمانے میں اسی طرح رہا، حضرت عثمان غنی کے زمانے میں جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور اطراف مدینہ میں پھیل گئے امام کے سامنے والی خطبہ کی اذان دور تک سنائی نہ دیتی تھی، تو عثمان غنی نے ایک اور اذان مسجد سے باہر اپنے مکان زوراء پر شروع کرا دی جس کی آواز پورے مدینہ میں پہنچنے لگی، صحابہ کرام میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا، اس  لیے یہ اذان اول باجماع صحابہ مشروع ہوگئی اور اذان جمعہ کے وقت بیع و شراء وغیرہ تمام مشاغل حرام ہوجانے کا حکم جو پہلے اذان خطبہ کے بعد ہوتا تھا اب پہلی اذان کے بعد سے شروع ہوگیا؛ کیوں کہ الفاظِ  قرآن  (نودي للصلوٰة من یوم الجمعة) اس پر بھی صادق ہیں، یہ تمام باتیں حدیث و تفسیر اور فقہ کی عام کتابوں میں بلا اختلاف مذکور ہیں۔"

( سورۃ نمبر 62 الجمعة آیت نمبر 9، 8 / 442، ط: ادارة المعارف،کراچی)

علامہ رازیؒ فرماتے ہیں:

"وقوله تعالى: (وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ)  قال الحسن: إذا أذن المؤذن يوم الجمعة لم يحل الشراء والبيع، وقال عطاء: إذا زالت الشمس حرم البيع والشراء، وقال الفراء: إنما حرم البيع والشراء إذا نودي للصلاة لمكان الاجتماع ولندرك له كافة الحسنات."

(التفسير الكبير: سورة الجمعة:٩، ٣٠/ ٥٤٢، ط: دار إحياء التراث العربي)

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے:

"حدثنا أبي، حدثنا أبو نعيم، حدثنا محمد بن راشد المكحولي، عن مكحول أن النداء كان في يوم الجمعة مؤذن واحد حين يخرج الإمام، ثم تقام الصلاة وذلك النداء الذي يحرم عنده البيع والشراء إذا نودي به، فأمر عثمان رضي الله عنه أن ينادي قبل خروج الإمام حتى يجتمع الناس."

(تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم: سورة الجمعة: ٩ ، رقم الحديث: ١٨٨٩٤، ١٠/ ٣٣٥٦، ط: مكتبة نزار)

بخاری شریف میں ہے:

"عن الزهري، قال: سمعت السائب بن يزيد، يقول: «إن الأذان يوم الجمعة كان أوله حين يجلس الإمام، يوم الجمعة على المنبر في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وعمر رضي الله عنهما، فلما كان في خلافة عثمان بن عفان رضي الله عنه، وكثروا، أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث، فأذن به على الزوراء، فثبت الأمر على ذلك»."

(كتاب الجمعة، باب التأذين عند الخطبة، رقم الحديث: ٩١٦، ٢/ ٩، ط: دار طوق النجاة)

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

"و الذي يظهر أن الناس أخذوا بفعل عثمان في جميع البلاد إذ ذاك لكونه خليفة مطاع الأمر."

(فتح الباري: ٢/ ٣٩٤، ط: دار المعرفة)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"قال مسلم بن يسار: «إذا علمت أن النهار قد انتصف يوم الجمعة، فلا تبتاعوا شيئا». عن ابن أبي ذئب: أن عمر بن عبد العزيز كان يمنع الناس البيع يوم الجمعة، إذا نودي بالصلاة. عن الضحاك قال: «إذا زالت الشمس من يوم الجمعة، فقد حرم البيع والشراء، حتى تقضى الصلاة»."

(كتاب الجمعة: الساعة التي يكره فيها الشراء والبيع، رقم: ٥٣٨٤ - ٥٣٨٦، ١/ ٤٦٥، ط: مكتبة الرشد)

ہدایہ میں ہے:

"(وإذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترك الناس البيع والشراء وتوجهوا إلى الجمعة) لقوله تعالي: ( فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ) [الجمعة: ٩]. (وإذا صعد الإمام المنبر جلس وأذن المؤذنون بين يدي المنبر) بذلك جرى التوارث ولم يكن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا هذا الأذان، ولهذا قيل: هو المعتبر في وجوب السعي وحرمة البيع، والأصح أن المعتبر هو الأول إذا كان بعد الزوال لحصول الإعلام به، والله أعلم."

شارح ہدایہ علامہ ابن الہمام ؒ فرماتے ہیں:

(قوله: ولم يكن على عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم إلا هذا الأذان) أخرج الجماعةُ إلا مسلما عن السائب بن يزيد قال: «كان النداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر - رضي الله عنهما -، فلما كان عثمان - رضي الله عنه - وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء»، وفي رواية للبخاري: «زاد النداء الثاني»، وزاد ابن ماجه: على دار في السوق يقال لها الزوراء، وتسميته ثالثا؛ لأن الإقامة تسمى أذانا كما في الحديث: «بين كل أذانين صلاة»، وهذا وقد تعلق بما ذكرنا من أنه لم يكن على عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم إلا هذا الأذان بعضُ من نفى أن للجمعة سنة، فإنه من المعلوم أنه كان صلي الله عليه وسلم إذا رقى المنبر أخذ بلال في الأذان فإذا أكمله أخذ صلي الله عليه وسلم في الخطبة، فمتى كانوا يصلون السنة؟ ومن ظن أنهم إذا فرغ من الأذان قاموا فركعوا، فهو من أجهل الناس، وهذا مدفوع بأن خروجه صلي الله عليه وسلم كان بعد الزوال بالضرورة فيجوز كونه بعدما كان يصلي الأربع، ويجب الحكم بوقوع هذا المجوز لما قدمناه في باب النوافل من عموم: أنه كان صلي الله عليه وسلم يصلي إذا زالت الشمس أربعا يقول: «هذه ساعة تفتح فيها أبواب السماء فأحب أن يصعد لي فيها عمل صالح»."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ٢/ ٦٨ - ٦٩، ط: دار الفكر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ويجب السعي وتركُ البيعِ بالأذان الأوّل) لقوله تعالي: إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ(٩)[الجمعة: ٩] وقيل: بالأذان الثاني؛ لأنه لم يكن في زمن النبي صلي الله عليه وسلم إلا هو والأول أصح إذا وقع بعد الزوال؛ لأنه لو توجه عند الأذان الثاني لم يتمكن من السنة قبلها، ومن استماع الخطبة بل يخشى عليه فوات الجمعة. وقال بعض العلماء: يجب السعي وترك البيع بدخول الوقت؛ لأن التوجه إلى الجمعة يجب بدخول الوقت، وإن لم يؤذن لها أحد؛ ولهذا لا يعتبر الأذان قبل الوقت."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة: ١/ ٢٢٣، ط: المطبعة الكبري الأميرية)

موسوعۃ فقہیہ میں ہے:

"أمر القرآن الكريم بترك البيع عند النداء (الأذان) يوم الجمعة، فقال تعالي: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (٩) والأمر بترك البيع نهي عنه. ولم يختلف الفقهاء في أن هذا البيع محرم لهذا النص، غير أن للجمعة أذانين، فعند أي الأذانين يعتبر مورد النهي عن البيع. أ - فمذهب جمهور الفقهاء، ومنهم بعض الحنفية كالطحاوي، أنه الأذان الذي جرى به التوارث، ولم يكن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو أذان خطبة الجمعة بين يدي المنبر، والإمام على المنبر، فينصرف النداء إليه. ولهذا قيده المالكية والحنابلة بالأذان الثاني واستدلوا لذلك بما يلي: - ما روي عن السائب بن يزيد رضي الله عنه ...

ب - والقول الأصح والمختار عند الحنفية، وهو اختيار شمس الأئمة، أن المنهي عنه هو البيع عند الأذان الأول الذي على المنارة، وهو الذي يجب السعي عنده، وهو الذي رواه الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إذا وقع بعد الزوال. وعللوه بحصول الإعلام به. ولأنه لو انتظر الأذان عند المنبر، يفوته أداء السنة وسَماع الخطبة، وربما تفوته الجمعة إذا كان بيته بعيدا من الجامع."

(بيع منهي عنه، البيع عند أذان الجمعة: ٩/ ٢٢٣- ٢٢٤، وزارة الأوقاف والشؤون، الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں