جماعت کے ساتھ نماز نہ رہ جائے تیز تیز چل کرمسجد جانا ، وضو جلدی میں کرنا ٹھیک ہے ؟
نماز کے لیے باوقار انداز میں خوب اہتمام کے ساتھ گھر سے باوضو ہو کے جانا چاہیے، تاہم اگر کسی وقت جماعت کے نکلنے کے خوف سے سرعت کے ساتھ وضو کرکے تیز قدموں کے ساتھ دوڑے بغیر جایا جائے تو اس میں حرج نہیں ، البتہ اس عمل کو معمول نہیں بنانا چاہیے۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ(ایک مرتبہ نماز میں شامل ہونے کے لیے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے وہ (اس بات کے پیش نظر کہ رکوع نہ رہ جائے نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد) صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے پھر آہستہ آہستہ چل کر صف میں شامل ہو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ: اللہ تعالی (اطاعت اور نیک کام کے بارے میں) تمہاری حرص اور زیادہ کرے ،لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا۔(البخاری)
'' عن ابي بكرة انه انتهي الي النبي صلي الله عليه وسلم وهو راكع فركع قبل أن يصل إلي الصف ثم مشي إلي الصف، فذكر ذلك إلي النبي صلي الله عليه وسلم، فقال : «زادك الله حرصاً و لا تعد». رواه البخاري''.( مشكاة المصابيح، باب الموقف، الفصل الاول، ص ٩٩)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن