ایک شخص نے مڈل کی جعلی ڈگری حاصل کی، اور اس پر نائب قاصد بھرتی ہوا، کیا اس کی تنخواہ حلال ہے یا حرام؟
جعلی ڈگری (سند) کاحصول جھوٹ،دھوکا دہی، خیانت اور حق داروں کی حق تلفی جیسے گناہوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکے بموجب دھوکا دہی کرنےوالا شخص ایمانِ کامل کی نعمت سےمحروم ہے؛ لہذا جعلی طریقہ سے ڈگری حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، ایسے شخص کو اس فعل پر توبہ واستغفار کرنالازم ہے۔
باقی جعلی ڈگری کی بنیاد پر ملازمت کرکے جو تنخواہ وصول کی جائے اس کے حلال یا حرام ہونے سے متعلق یہ ضابطہ ہے کہ اگر مذکورہ شخص متعلقہ ملازمت کی صلاحیت رکھتا ہو اور متعلقہ امور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتا ہو تو اس کی تن خواہ حلال ہوگی، اس لیے کہ تنخواہ کے حلال ہونے کا تعلق مفوضہ ذمہ داریوں کی درست ادائیگی سے ہے۔ اور اگر وہ شخص اس ملازمت کا اہل نہیں ہے، یا اہل تو ہے مگر دیانت داری کے ساتھ کام نہیں کرتا تو اس کی تن خواہ حلال نہیں ہوگی۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201852
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن