بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جس گوشت کے شرعی طور پر ذبح ہونے کا یقین نہ ہو اس کے کھانے کا حکم


سوال

جس گوشت کے بارے میں یقین نہ ہو کہ یہ حلال ہے یا نہیں؟ ( مثلاً اس پر تکبیر پڑھی گئی ہے یا نہیں؟ ) تو اس کو کھانا چاہیے  یا نہیں؟

جواب

اسلامی ملک کا ذبیحہ ہو یا جس جگہ یقینی طور پر معلوم ہوکہ ذبح کرنے والے مسلمان ہیں، وہاں بلادلیل شک و شبہ نہیں کرنا چاہیے، ایسا گوشت کھانا حلال ہوگا۔ البتہ اگر یقین سے معلوم ہوجائے کہ مسلمان نے شرعی طریقے پر ذبح نہیں کیاتو وہ گوشت حلال نہیں ہوگا۔

اور اگر غیر مسلم ملک ہو یا ایسا علاقہ ہو جہاں غیر مسلم کے ذبیحہ کا بھی احتمال ہو  تو جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہوجائے کہ یہ جانور شرعی طور پر ذبح کیا گیا ہے، اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔  جہاں معتمد اور دین دار مسلمان ذبیحے کے حلال اور شرعی ہونے کی شہادت  دیں تو ان کی خبر پر اعتماد کر کے کھالینا چاہیے، اور بلاوجہ شکوک وشبہات اوروہم کا شکار رہنا مناسب نہیں۔

الفتاوى الهندية (3/ 210):
"رجل اشترى من التاجر شيئاً، هل يلزمه السؤال أنه حلال أم حرام؟ قالوا: ينظر إن كان في بلد و زمان كان الغالب فيه هو الحلال في أسواقهم ليس على المشتري أن يسأل أنه حلال أم حرام، ويبنى الحكم على الظاهر، وإن كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلاً يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام".

غمز عيون البصائر - (1 / 384):
"اعلم أن الشك على ثلاثة أضرب: شك طرأ على أصل حرام، وشك طرأ على أصل مباح، وشك لايعرف أصله، فالأول، مثل: أن يجد شاةً مذبوحةً في بلد فيها مسلمون ومجوس؛ فلاتحل، حتى يعلم أنها ذكاة مسلم؛ لأن أصلها حرام، وشككنا في الذكاة المبيحة، فلو كان الغالب فيها المسلمين جاز الأكل عملًا بالغالب المفيد".
فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144102200376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں