بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جس شخص نے قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھا کیا روزِ قیامت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اعراض فرمائیں گے؟


سوال

قرآنِ کریم کی ایک آیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن شکوہ فرمائیں گے کہ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا، اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو صرف تلاوت نہیں کرنا، بلکہ اس کی تلاوت کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ پڑھنا اور سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے ۔ جو اس طرح نہیں کرتے وہ اس آیت کے ذیل میں آتے ہیں ۔کیا یہ بات درست ہے؟ اگر ایسا ہے تو میرے والدین اور دیگر بزرگ جو کہ قرآن کریم کو پڑھتے تھے، مگر ترجمہ اور تفسیر سے ناواقف تھے، البتہ نماز، روزہ، فرائض اور واجبات کی ادائیگی کا حتی الامکان اہتمام کرتے تھے اور حلال و حرام کا خیال رکھتے تھے، کیا ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن ناراض ہوں گے؟ کیا جو لوگ اَن پڑھ ہیں، مگر دین کے احکامات پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں تو قرآن مجید کی تفسیر نہ سمجھنے کی وجہ سے قابل ملامت ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ مجید کی کسی آیت کی وہ تفسیر معتبر ہوتی ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و خیر القرون کے اہلِ علم سے منقول ہو یا ان کے اقوال سے مستنبط ہو، پس قرآنی آیات کی ایسی تفسیر بیان کرنا جس کا ثبوت تفاسیر معتبرہ میں نہ ملتا ہو، درست نہیں، لہذا سوال میں ذکر کردہ آیت کی وہی تفسیر قابلِ قبول ہوگی جو تفاسیر معتبرہ میں موجود ہے۔ چناں چہ  بعض مفسرین نے روایات کی روشنی میں ترکِ قرآن  سے مراد کفار کی جانب سے آیاتِ قرآنی کو سحر و جادو، شعر کہنے کو قرار دیا ہے، دیگر بعض نے روایات کی روشنی میں اس سے مراد اُن مشرکین کو قرا دیا ہے جو قرآنِ مجید سننا ہی گوارہ نہیں کرتے تھے، اور اعراض کرتے رہتے تھے۔ ذیل میں مذکورہ آیت کی تفسیر معتبر تفاسیر سے نقل کی جاتی ہے:

معارف القرآن میں ہے:

’’{وَقَال الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا} یعنی کہیں گے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو مہجور و متروک کردیا ہے۔ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت بارگاہِ حق تعالیٰ میں قیامت کے روز ہوگی یا اسی دنیا میں آپ نے یہ شکایت فرمائی؟ ائمہ تفسیر اس میں مختلف ہیں، احتمال دونوں ہیں ۔ اگلی آیت بظاہر قرینہ اس کا ہے کہ یہ شکایت آپ نے دنیا ہی میں پیش فرمائی تھی، جس کے جواب میں آپ کو تسلی دینے کے لیے اگلی آیت میں فرمایا وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ، یعنی اگر آپ کے دشمن قرآن کو نہیں مانتے تو آپ کو اس پر صبر کرنا چاہیے، کیوں کہ سنت اللہ ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ہر نبی کے کچھ مجرم لوگ دشمن ہوا کرتے ہیں اور انبیاء علہیم السلام اس پر صبر کرتے رہے ہیں۔ قرآن کو عملاً  ترک کر دینا بھی گناہِ عظیم ہے، اس سے ظاہر یہ ہے کہ قرآن کو مہجور ومتروک کردینے سے مراد قرآن کا انکار ہے، جو کفار ہی کا کام ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ جو مسلمان قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں، مگر نہ اس کی تلاوت کی پابندی کرتے ہیں، نہ اس پر عمل کرنے کی وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں ۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ’’من تعلم القرآن وعلق مصحفه لم یتعاهده ولم ینظر فیه جاء یوم القیمة متعلقاً به یقول: یا رب العلمین إن عبدك هذا اتخذني مهجوراً، فاقض بیني و بینه. ذکره الثعلبي‘‘. (قرطبی) " جس شخص نے قرآن پڑھا، مگر پھر اس کو بند کرکے گھر میں معلق کردیا،  نہ اس کی تلاوت کی پابندی کی،  نہ اس کے احکام میں غور کیا، قیامت کے روز قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندہ نے مجھے چھوڑ دیا تھا، اب آپ میرے اور اس کے معاملہ کا فیصلہ فرما دیں ‘‘۔

تفسیر الطبری میں ہے:

’’{وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا}، يقول تعالى ذكره: وقال الرسول يوم يعضّ الظالم على يديه: يا ربّ إن قومي الذين بعثتني إليهم لأدعوهم إلى توحيدك اتخذوا هذا القرآن مهجوراً. واختلف أهل التأويل في معنى اتخاذهم القرآن مهجوراً، فقال بعضهم: كان اتخاذهم ذلك هجراً، قولهم فيه السييء من القول، وزعمهم أنه سحر، وأنه شعر.

ذكر من قال ذلك:

حدثني محمد بن عمرو قال: ثنا أبو عاصم قال: ثنا عيسى وحدثني الحارث قال: ثنا الحسن قال: ثنا ورقاء جميعاً عن ابن أبي نجيح عن مجاهد قوله: ( اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ) قال: يهجُرون فيه بالقول، يقولون: هو سحر. حدثنا القاسم قال: ثنا الحسين قال: ثني حجاج عن ابن جُرَيج عن مجاهد قوله: ( وَقَالَ الرَّسُولُ ) ... الآية: يهجرون فيه بالقول. قال مجاهد: وقوله: {مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ} قال: مستكبرين بالبلد سامراً مجالس تهجرون، قال: بالقول السييء في القرآن غير الحقّ. حدثني الحارث قال: ثنا الحسن قال: ثنا هشيم عن مغيرة عن إبراهيم في قول الله: ( إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ) قال: قالوا فيه غير الحقّ، ألم تر إلى المريض إذا هذي قال غير الحق.

وقال آخرون: بل معنى ذلك: الخبر عن المشركين أنهم هجروا القرآن وأعرضوا عنه ولم يسمعوا له.

ذكر من قال ذلك:

حدثني يونس قال: أخبرنا ابن وهب قال: قال ابن زيد في قول الله: ( وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبّ إِنَّ َ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ) لايريدون أن يسمعوه, وإن دعوا إلى الله قالوا: لا. وقرأ: {وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ} قال: ينهون عنه، ويبعدون عنه. قال أبو جعفر: وهذا القول أولى بتأويل ذلك، وذلك أن الله أخبر عنهم أنهم قالوا: {لاتَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ}، وذلك هجرهم إياه‘‘.

مذکورہ معتبر تفاسیر کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب درج ذیل  ہے:

1۔ یہ آیت کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مسلمان اس میں داخل نہیں۔

2۔ جس مسلمان نے قرآنِ مجید کا ترجمہ نہیں پڑھا، البتہ اَحکامِ شرع کا پابند رہا، وہ اس وعید میں داخل نہیں۔

 3۔ ایسے افراد ملامت کے حق دار نہیں، نیز اگر کوئی قرآن مجید کو سمجھنے کی خواہش رکھتا ہو تو اسے چاہیے کسی مستند عالمِ دین کی خدمات حاصل کرکے ان کی نگرانی میں سمجھے، اپنے قوتِ مطالعہ پر اعتماد نہ کرے، تاکہ قرآنِ مجید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مطابق سمجھنا ممکن ہو، کیوں کہ رطب و یابس میں فرق کرنا عام مسلمان کے لیے ممکن نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں