بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جدید آلات اور پرگرام موبائل، واٹس ایپ، فیس بک، ویڈیو کال کے ذریعے نکاح اور طلاق کا حکم


سوال

جدید آلات موبائل فون، واٹس اپ،  فیس بک ،آیمو،  یا ویڈو کال وغیرہ کے ذریعے نکاح اور طلاق کا کیا حکم ہے ؟

جواب

 شریعت نے نکاح کے انعقاد کے لیے ایک ضابطہ رکھا ہے، اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ شرعاً نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس ایک ہونا  اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا  خود موجود ہونا  یا ان کے وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے،  نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے، سوال میں مذکورہ چیزوں مثلاً:  ٹیلی فون، واٹس ایپ، ویڈیو کال وغیرہ  پر نکاح میں  مجلس کی شرط مفقود ہوتی ہے؛ کیوں کہ شرعاً نہ تو یہ صورت حقیقتاً مجلس کے حکم میں ہے اور نہ ہی حکماً، کیوں کہ وہ ایک مجلس ہی نہیں ہوتی، بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں، جب کہ ایجاب و قبول کے لیے عاقدین اور گواہوں  کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں  نکاح منعقد نہیں ہوتا۔  البتہ اگر ان پروگرامز کا استعمال کرتے ہوئے  صرف لڑکا  یا لڑکی ان جدید آلات کے ذریعے رابطہ میں ہوں  اور کسی جگہ عقدِ نکاح کی مجلس منعقد کی جائے اور لڑکا اور لڑکی کے وکیل عقدِ نکاح کی مجلس میں موجود  ہوں  اور انہوں نے ان کی طرف سے گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کیا  تب تو نکاح منقعد ہوجائے گا۔

 باقی طلاق کے لیے چوں کہ مجلس کا ایک ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ طلاق تو بیوی کی غیر موجودگی میں بھی واقع ہوجاتی ہے، لہذا ان جدید آلات میں مذکورہ پروگرامز کا استعمال کرتے  ہوئے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے تو وہ طلاق منعقد ہوجائے گی۔ 

لیکن یہ بھی واضح رہے کہ ویڈیو کال (خواہ واٹس ایپ پر ہو یا اسکائپ یا آیمو وغیرہ پر) تصویر کے حکم میں اور ناجائز ہے۔

وفي الدر المختار مع رد المحتار:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً". (کتاب النکاح: ۳/ ۱۴، ط: سیعد)

وفیہ أیضاً:

’’ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب، جوهرة. وفي الرد: وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو‘‘. (3/246، کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں