بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جدہ کے رہائشی کا مسجد عائشہ سے حج کا احرام باندھنا


سوال

 میں سعودی عرب جدہ میں رہتا ہوں میں نے حجِ افراد ادا کیا ہے، چوں کہ کمپنی کے ساتھ حج کے اخراجات برداشت نہیں ہو سکتے تھے اور چھپکے سے حج پہ جانے کے لیے راستے کی چیک پوسٹ اور حدِ حرم احرام کے بغیر گزارنا لازمی تھا تو دم لازمی آرہا تھا ۔ ایک دوست نےحیلہ بتایا کہ اگر آپ یہ نیت کر لیں کہ چوں کہ میں نے چیک پوسٹ کراس کر کے جانا ہے کیا پتا نہ پہنچ پاؤں؛ اس لیے نیت نہیں کرتا۔ اور حرم جا کر پھر واپس آکر مسجدِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے احرام کے ساتھ نیت کر کے جاؤں گا تو میں نے ایسا ہی کیا ۔ اب کیا دم لازم آئے گا؟ حال آں کہ ارادہ تو جدہ سے ہی حج کا تھا، مگر نیت اس حیلہ کے مطابق مسجدِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی ہے ؟

جواب

 آپ جدہ میں رہنے کی وجہ سے اہلِ حل میں سے ہیں، اس لیے حج کا ارادہ ہونے کی وجہ سے آپ پر لازم تھا کہ آپ حرم میں داخل ہونے سے پہلے احرام کی نیت کرلیتے،  لہٰذا احرام کی نیت کے بغیر حج کے ارادے سے حرم میں داخل ہونے کی وجہ سے آپ پر ایک دم لازم تو ہوگیا تھا، لیکن پھر دوبارہ حدودِ حرم سے باہر مقامِ حل میں واقع  مسجد عائشہ  جاکر وہاں سے حج کا  احرام باندھ کر واپس آنے کی وجہ سے آپ کے ذمہ سے دم ساقط ہوگیا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ آپ پر دم لازم نہیں ہے۔ لیکن مذکورہ صورت کو مستقل طور پر اختیار کرنا پسندیدہ نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 163 ۔۱۶۶)

"والناس في حق المواقيت أصناف ثلاثة: صنف منهم يسمون أهل الآفاق: وهم الذين منازلهم خارج المواقيت التي وقت لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهي خمسة، كذا روي في الحديث: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقت لأهل المدينة ذا الحليفة، ولأهل الشام الجحفة، ولأهل نجد قرن، ولأهل اليمن يلملم، ولأهل العراق ذات عرق، وقال صلى الله عليه وسلم : هن لأهلهن ولمن مر بهن من غير أهلهن ممن أراد الحج أو العمرة» .

وصنف منهم يسمون أهل الحل: وهم الذين منازلهم داخل المواقيت الخمسة خارج الحرم، كأهل بستان بني عامر وغيرهم. وصنف منهم يسمون أهل الحرم: وهم أهل مكة ... وأما الصنف الثاني فميقاتهم للحج أو العمرة دويرة أهلهم أو حيث شاءوا من الحل الذي بين دويرة أهلهم وبين الحرم؛ لقوله عز وجل: ﴿ وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ﴾ [البقرة: 196] روينا عن علي وابن مسعود - رضي الله عنهما - أنهما قالا حين سئلا عن هذه الآية: إتمامهما أن تحرم بهما من دويرة أهلك، فلا يجوز لهم أن يجاوزوا ميقاتهم للحج أو العمرة إلا محرمين، والحل الذي بين دويرة أهلهم وبين الحرم كشيء واحد، فيجوز إحرامهم إلى آخر أجزاء الحل، كما يجوز إحرام الآفاقي من دويرة أهله إلى آخر أجزاء ميقاته، فلو جاوز أحد منهم ميقاته يريد الحج أو العمرة فدخل الحرم من غير إحرام فعليه دم، ولو عاد إلى الميقات قبل أن يحرم أو بعد ما أحرم، فهو على التفصيل والاتفاق والاختلاف الذي ذكرنا في الآفاقي إذا جاوز الميقات بغير إحرام".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 165)

"ولو جاوز ميقاتاً من المواقيت الخمسة يريد الحج أو العمرة فجاوزه بغير إحرام، ثم عاد قبل أن يحرم وأحرم من الميقات، وجاوزه محرماً لا يجب عليه دم بالإجماع؛ لأنه لما عاد إلى الميقات قبل أن يحرم، وأحرم التحقت تلك المجاوزة بالعدم، وصار هذا ابتداء إحرام منه". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں