بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جبریل امین سے جہنم کے احوال کے بارے میں تفصیلی روایت


سوال

درج ذیل میسج سوشل میڈیا پر بہت چلتاہے، اس روایت کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے:

ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل کچھ پریشان ہیں،  آپ ﷺ نے  فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غم زدہ دیکھ رہا ہوں؟  جبرائیل نے عرض کی:  اے محبوبِ کل،  میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے  ہیں،   نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ! جبرائیل نے عرض کی:  جہنم کے کل سات درجے ہیں، ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا، اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے، اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے، چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے،  تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے،  دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں کے۔ یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو  نبی کریم ﷺ نے پوچھا: جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟  جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا:  اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کی امت کے گناہ گاروں کو ڈالیں  گے،  جب نبی کریم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جائے  گا تو  آپ بے حد غمگین ہوئے اور آپ ﷺ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کیں،  تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکے اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے،  صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم ﷺ پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے، مسجد سے حجرے جاتے ہیں،  گھر بھی تشریف لے کر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکر سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آئے دستک دی اور سلام کیا، لیکن سلام کا جواب نہیں آیا۔ آپ روتے ہوئے سیدنا عمر کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا،  لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جائے، آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا،  حضرت عمر نے سلمان فارسی کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا،  حضرت سلمان فارسی نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا، انہوں نے سوچا کہ جب اتنی  عظیم شخصیات  کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نہیں جانا چاہیے، بلکہ مجھے ان کی نورِ نظر بیٹی فاطمہ اندر بھیجنی چاہیے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو سب احوال بتا دیا،  آپ حجرے کے دروازے پہ آئیں’’ابا جان السلام علیکم‘‘  بیٹی کی آواز سن کر محبوبِ کائنات اٹھے،  دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا،  ابا جان آپ پر کیا کیفیت ہے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرماہیں،  نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جائے  گی،  فاطمہ بیٹی مجھے اپنی امت کے گناہ گاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ ان کو معا ف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہ گاروں پہ رحم کر،  ان کو جہنم سے آزاد کر کہ اتنے میں حکم آگیا {وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى}  اے میرے محبوب غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے. آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا: لوگو! اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روزِ قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کرے  گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جائے۔

لکھتے ہوئے آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا ہے اور بدلے میں ہم نے ان کو کیا دیا؟ آپ کا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے،  میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر کرتے ہیں. آج اپنے نبی کی رحمت کا یہ پہلو کیوں نہ شیئر کریں. آئیں ایک ایک شیئر کرکہ اپنا حصہ ڈالیں . کیا پتہ کون گنہگار پڑھ  کہ راہِ راست پہ آجائے۔ 

جواب

اس طرح کی روایت کسی مستند کتاب میں نہیں مل سکی؛ اس لیے اسے حدیث کہہ کر بیان کرنا اور سوشل نیٹ ورک پر اس کی تشہیر کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض حضرات نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا امت کے حق میں شفیق و مہربان ہونا بہت سی صحیح احادیثِ مبارکہ اور قرآنِ پاک کے صریح نصوص سے ثابت ہے، اور آپ ﷺ کا امت کے لیے راتوں کو  رو رو کر دعائیں کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے، قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کا امت کے حق میں سفارش کرنا، بلکہ اہلِ کبائر کے حق میں سفارش کرنا بھی احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، یہ مضامین بیان کرنے کے لیے ان صحیح اور ثابت شدہ قطعی نصوص سے استدلال کرنا چاہیے اور ان ہی کو بیان کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کی شفقت اور مہربانی ثابت کرنے کے لیے موضوع (من گھڑت) روایت بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں