بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانوروں کی ہڈیوں کے سفوف سے بنے ہوئے برتنوں کا حکم ، عورت کے لیے متعدد عمرے کرنے کی صورت میں قصر کا حکم


سوال

1. آج کل چائینا سے مخصوص ڈنر سیٹ آرہے ہیں، جن کے بارے میں کہاجارہاہے کہ ان کے بناتے وقت ان میں ہڈیوں کا سفوف ڈالا جاتا ہے. وہ ہڈیاں کسی بھی جانور وغیرہ کی ہوسکتی ہیں.آیا ان برتنوں کو خریدنا استعمال کرنا کیسا ہے?

 2. عمرہ کے احرام سے حلال ہونے کے لیے خواتین کے لیے ایک پور بال کاٹناہے۔ اگر کوئی خاتون کئی عمرے کرنا چاہے تو کیا ہر بار ایک پور بال کاٹے؟ چاہے بال کٹنے کے بعد کتنے ہی مختصر کیوں نہ رہ جائیں، یا اس کی کوئی حد ہے کہ اتنے بال رہنے کے بعد اب بال نہیں کاٹیں گے یااب مزید عمرہ نہیں کریں گی؟

جواب

1۔مذبوح یا غیر مذبوح جانوروں (اگرچہ ان کا گوشت نہ کھایاجاتاہو)کی  خشک ہڈیاں پاک ہیں، اگر ان ہڈیوں کاسفوف   برتن بنانے میں استعمال ہوتاہے تو ایسے برتن خریدنااور استعمال کرنادرست ہے، اس لیے کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جانوروں کی ہڈیاں پاک ہیں اور ان سے انتفاع بھی درست ہے، اگرچہ وہ ہڈیاں کسی مردار جانور ہی کی کیوں نہ ہوں۔

البتہ انسان اور خنزیردونوں اس حکم سے مستثنی ہیں، انسان بوجہ احترام وتکریم کے اور خنزیرنجس العین ہونے کی وجہ سے ۔اور خنزیر کے اجزاء میں سے بشمول ہڈی کے کسی بھی جز سے نفع اٹھاناجائزنہیں ہے۔لہذااگر برتنوں کے بنانے میں خنزیرکی ہڈیوں کاپاؤڈر استعمال کیا جاتا ہو اور یہ بات تحقیق سے بھی ثابت ہو محض شبہ نہ ہوتوایسے برتنوں کاخریدنااور استعمال کرنا درست نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

'( وشعر الخنزير )؛ لنجاسة عينه، فيبطل بيعه، ابن كمال، ( و ) إن ( جاز الانتفاع به )؛ لضرورة الخرز ؛ حتى لو لم يوجد بلا ثمن جاز الشراء للضرورة، وكره البيع فلا يطيب ثمنه، ويفسد الماء على الصحيح خلافاً لمحمد ، قيل: هذا في المنتوف ، أما المجزوز فطاهر، عناية .

وعن أبي يوسف يكره الخرز به ؛ لأنه نجس ، ولذا لم يلبس السلف مثل هذا الخف، ذكره القهستاني، ولعل هذا في زمانهم ، وأما في زماننا فلا حاجة إليه كما لا يخفى......... وحاصله: أن تأتي الخرز بغيره من شخص حمل نفسه مشقة في ذلك لا تزول به ضرورة الاحتياج إليه من عامة الناس ( قوله: ولعل هذا ) أي حل الانتفاع به؛ لضرورة الخرز ( قوله: أما في زماننا فلا حاجة إليه ) للاستغناء عنه بالمخارز والإبر' .  (19/288)

مراقی الفلاح میں ہے:

'( وكل شيء ) من أجزاء الحيوان غير الخنزير ( لا يسري فيه الدم لا ينجس بالموت )؛ لأن النجاسة باحتباس الدم وهو منعدم فيما هو ( كالشعر والريش المجزوز )؛ لأن المنسول جذره نجس ( والقرن والحافر والعظم ما لم يكن به ) أي العظم ( دسم ) أي ردك؛ لأنه نجس من الميتة، فإذا زال عن العظم زال عنه النجس والعظم في ذاته طاهر؛ لما أخرج الدارقطني: " إنما حرم رسول الله صلى الله عليه و سلم من الميتة لحمها "، فأما الجلد والشعر والصوف فلا بأس به' .  (1/107)

البحرالرائق میں ہے:

'وأما الخنزير فشعره وعظمه وجميع أجزائه نجسة، ورخص في شعره للخرازين للضرورة ؛ لأن غيره لا يقوم مقامه عندهم، وعن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه كره لهم ذلك أيضاً، ولا يجوز بيعه في الروايات كلها ، وإن وقع شعره في الماء القليل نجسه عند أبي يوسف، وعند محمد لا ينجس ، وإن صلى معه جاز عند محمد، وعند أبي يوسف لا يجوز إذا كان أكثر من قدر الدراهم، واختلفوا في قدر الدرهم، قيل: وزناً، وقيل: بسطاً، كذا في السراج الوهاج، وذكر السراج الهندي: أن قول أبي يوسف بنجاسته هو ظاهر الرواية، وصححه في البدائع، ورجحه في الاختيار، وفي التجنيس: لا بأس ببيع عظام الموتى ؛ لأنه لا يحل العظام الموت، وليس في العظام دم فلا تنجس، فيجوز بيعها إلا بيع عظام الآدمي والخنزير' . (1/406)

الجامع الصغیر میں ہے:

'ولا بأس ببيع عظام الميتة وعصبها وعقبها وصوفها وشعرها وقرنها ووبرها والانتفاع بذلك كله' . (1/328)

البحرالرائق میں ہے:

'قال محمد في السير الكبير: لا بأس بالتداوي بالعظم إذا كان عظم شاة أو بقر أو بعير أو فرس أو غيره من الدواب إلا عظم الخنزير والآدمي؛ فإنه لا يمكن التداوي بهما، ولا فرق فيما يجوز بين أن تكون ذكياً أو ميتاً رطباً أو يابساً' .  (22/197)

المحیط البرہانی میں ہے:

'فالحاصل: أن عظم ما سوى الخنزير والآدمي من الحيوانات، إذا كان الحيوان ذكاة إنه طاهر سواء كان العظم رطباً أو يابساً، وأما إذا كان الحيوان ميتاً، فإن كان عظمه رطباً فهو نجس، وإن كان يابساً فهو طاهر؛ لأن اليبس في العظم بمنزلة الدباغ من حيث إنه يقع الأمن في العظم باليبس عن الفساد كما يقع الأمن في الجلد بالدباغ، فكذا العظم باليبس، وأما عظم الخنزير فنجس وفي عظم الآدمي اختلفوا، بعض مشايخنا قالوا: إنه نجس، وبعضهم قالوا: إنه طاهر، واتفقوا (أنه) لنقص بكرامته؛ لأن الآدمي مكلف بجميع أجزائه، وفي الانتفاع بأجزائه نوع إهانة به، والله أعلم' .  (2/209)

کفایت المفتی میں ہے:

'اگر خنزیر کے گوشت کو کیمیاوی طریق سے تیل بنالیاجائے تو وہ تیل بھی ناپاک ہوگا.....اس تیل کی خریدوفروخت ناجائز ہوگی،اور اسی طرح ان چیزوں کی خریدوفروخت ناجائز ہوگی جن میں وہ تیل موجود ہے...'۔(9/143)

2۔عمرہ کے سفر میں ایک بار عمرہ کرلینے کے بعد عورت پر قصر کرنالازم ہوتاہے ، یعنی کم از کم چوتھائی سر کے بال ایک پورے کے برابر کاٹنا حلال ہونے کے لیے ضروری ہے، ایک سے زائد عمرے کرنا مستحب عمل ہے، اور ایک سے زائد عمرے  کرنے کی صورت میں   ہرعمرے سے حلال ہونے کے لیے  قصر کرنا لازم ہے؛ لہٰذا اگر عورت چاہے تو ایک سفر میں ایک ہی عمرہ پر اکتفا کرسکتی ہے اور باربارعمرےکے بجائے وہ زیادہ طواف کرسکتی ہے۔

بذل المجہود میں ہے:

"وقدر التقصیر فأقله بقدر أنملة، قال الشوکاني: فیه دلیل علی أن المشروع في حقهن التقصیر، وقد حکی الحافظ الإجماع علی ذلک … الحلق مسنون للرجال، ومکروه للنساء، والتقصیر مباح لهم، ومسنون أي مؤکد بل واجب لهن؛ لکراهة الحلق کراهة تحریم إلا لضرورة، قلت: ولو اعتمرت المرأة أیاماً، وقصرت من شعرها کل یوم حتی بقیت شعرها قدر أنملة، فإن حلقت رأسها وقعت في الحرمة أو الکراهة، وإن لم تحلق فلا تحل، ولم أرحکمه في ذلک في شيء من کتب المذاهب، إلا أن یقال: کما أن إجراء الموسی علی من لیس له شعر في الرأس کذلک إجراء المقص لعلها تکفیها. واﷲ أعلم". (۱۸۴/۳)

بنایہ میں ہے:

"والتقصیر أن یأخذ من رؤس شعره مقدار الأنملة، وهذا التقدیر مروي عن ابن عمر رضي اﷲ تعالیٰ عنه، وعلیه إجماع الأمة، والمرأة فیه کالرجل، وفي الولوالجي: تقصر ربع رأسها مقدار الأنملة۔ وفي (صـ۱۶۷): ولا تحلق ولکن تقصر؛ لما روي أن النبي ﷺ نهی النساء عن الحلق وأمرهن بالتقصیر ... ولأن حلق الشعر في حقها مثلة کحلق اللحیة في حق الرجال، والمثلة حرام، فلا تجوز إقامة السنة بارتکاب الحرام، والسنة في حقها التقصیر". (۱۳۷/۵)

فتاوی شامی میں ہے:

'مطلب: الصلاة أفضل من الطواف وهو أفضل من العمرة ... وأجاب العلامة القاضي إبراهیم بن ظهیرة المکي حیث سئل هل الأفضل الطواف أو العمرة من أن الأرجح تفضیل الطواف علی العمرة إذا شغل به مقدار زمن العمرة إلا إذا قیل: إنها لا تقع إلافرض کفایة فلا یکون الحکم کذلک' . ( ۵۰۲/۲)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں