بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کو آدھ آدھ پر دینا


سوال

 زید نے ایک لاکھ روپے کی بکریاں خرید کر بکر کو اس شرط پر دیں  کہ وہ ایک سال تک ان کی خدمت کرے گا جو ان کی خوراک پر خرچ ہوگا،  وہ زید اور بکر کے درمیان نصف نصف ہوگا،  جب بکریاں بیچیں گے تو زید اپنی اصل قیمتِ  خرید نکال لے گا، جو منافع ہوگا وہ زید اور بکر کے درمیان نصف نصف ہوگا۔ 

  اگر بالفرض بیچنے سے پہلے بکریاں مر گئیں تو نقصان زید کا ہوگا یا بکر کا؟

جواب

اگر ایک شخص دوسرے کو جانور دیتا ہے ؛ تا کہ وہ اس کو پالے اور  جو اس کی آمدنی  ہو تو وہ دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہو تو یہ معاملہ احناف کے نزدیک  درست نہیں، البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتلاءِ شدید کی صورت میں حنبلی مسلک کی رو  سے  اس کے جواز کی گنجائش دی ہے، لہذا اگر ابتلاءِ عام ہو تو ایسا معاملہ کرنے کی گنجائش ہو گی۔

اس کی جائز صورت یہ ہے کہ جانور پالنے والے کے لیے الگ سے اجرت مقرر کی جائے اور جانور اور اس کی آمدنی اصل مالک ہی کی  رہے  اور اس صورت میں اگر جانور فروخت کرنے سے پہلے مر گئے تو نقصان اصل مالک یعنی زید کا ہو گا۔

دوسری جائز صورت یہ ہے کہ  مالک جانور کی مناسب قیمت لگا کر نصف حصہ پرورش کرنے والے کے ہاتھ فروخت کردے، پھر چاہے تو  اس کی قیمت معاف کردے، تو ایسی صورت میں جانور دونوں کے درمیان مشترک ہوجائے گا؛ اس لیے اس کی نسل وآمدنی بھی دونوں کے درمیان نصف نصف ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس صورت میں جانور چوں کہ دونوں کے درمیان مشترک تھا تو دونوں کا مشترکہ نقصان ہو گا۔

الفتاوى الهندية (2/ 335):

"و على هذا إذا دفع البقرة إلى إنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين فما حدث فهو لصاحب البقرة ولذلك الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فيما قام عليها وعلى هذا إذا دفع دجاجة إلى رجل بالعلف ليكون البيض بينهما نصفين، والحيلة في ذلك أن يبيع نصف البقرة من ذلك الرجل ونصف الدجاجة ونصف بذر الفليق بثمن معلوم حتى تصير البقرة وأجناسها مشتركة بينهما فيكون الحادث منها على الشركة، كذا في الظهيرية."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں