بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور میں حرام مغز اور غدود سے مراد کیاہے؟ اور ان کا شرعی حکم


سوال

حرام مغز جانور کے کس حصہ میں ہوتاہے؟  نیز غدود کے بارےمیں  بھی بتادیں!

جواب

جانور کے غدود سے مراد اور اس کا حکم:

غدود کو عربی میں "غدۃ" سے تعبیر کرتے ہیں،  یہ سخت گوشت کو کہتے ہیں،اس کی صورت یہ ہوتی ہے   بسا اوقات خون جم کر گٹھلی کی صورت میں ہوجاتا ہے، یا بیماری کی وجہ سے جلد اور گوشت کے درمیان سخت گوشت کا ٹکرا پیدا ہوجاتا ہے،جو ہلانے سے ہلتا بھی ہے،  اسی طرح کبھی ہڈیوں کے درمیان سخت ٹکڑا بن جاتا ہے،  جسے اردو میں  گلٹی اور گانٹھ بھی کہا جاتا ہے،  اس کے گرد چربی ہوتی ہے۔ اسے فقہاء نے جانور کی حرام چیزوں میں شمار کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ "غدود" سے مراد جانور کے جسم کا متعین حصہ نہیں ہے جو ہر جانور میں موجود ہو، بلکہ بیماری کی وجہ سے کسی جانور میں ہوسکتاہے، اگر کسی جانور میں یہ موجود ہو تو اسے کھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

قواعد الفقه (ص: 398)
''الغدة فيما يكره أكله من الشاء وغيرها من الذبائح: كل عقدة في الجسم أطاف بها شحم، وأيضاً كل قطعة لحم صلبة تحدث عن داء بين اللحم والجلد تتحرك بالتحريك، وأيضاً طاعون الإبل''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 749)
'' (كره تحريماً) وقيل تنزيهاً، والأول أوجه، (من الشاة سبع: الحياء والخصية والغدة والمثانة والمرارة والدم المسفوح والذكر) ؛ للأثر الوارد في كراهة ذلك ۔

(قوله: والغدة) بضم الغين المعجمة كل عقدة في الجسد أطاف بها شحم، وكل قطعة صلبة بين العصب ولا تكون في البطن، كما في القاموس''۔

حرام مغز سے مراد اور اس کا حکم:

اور "حرام  مغز"   : دودھ کی طرح سفید  دوڑی ہے جو پیٹھ کی ہڈی کے اندر ، کمر سے لے کر گردن تک ہوتی ہے۔

اس کی حرمت کی صراحت صاحبِ کنز اور علامہ طحطاوی رحمہما اللہ نے کی ہے، لیکن دیگر فقہاء نے "حرام مغز"  کو جانور کے حرام اجزاء میں شامل نہیں کیا۔  اسی وجہ سے اکابر کے فتاوی میں اس کا حکم مختلف ہے۔ مفتی رشید احمدگنگوہی رحمہ اللہ  (تالیفات رشیدیہ 451)  اور مفتی محمود  گنگوہی رحمہ اللہ (فتاوی محمودیہ 17/298)  اس کو مکروہ لکھتے ہیں ، جب کہ بعض دیگر اکابرمثلاً: مفتی اعظم ہند مفتی  کفایت اللہ رحمہ اللہ (کفایت المفتی 6/262)  اور  مولانا ظفر احمد تھانوی رحمہ اللہ (امداد الاحکام 4/312)  اس کےحلال ہونے کے قائل ہیں۔  بعضوں نے یوں تطبیق دی ہے حرام مغز میں کراہت سے مراد کراہت تنزیہہ ہے،  اور یہ ممانعت طبعی کراہت کی وجہ سے ہے، لہذا حرام مغز  نہ کھانے میں احتیاط ہے۔

''والنخاع: عرق أبيض في عظم الرقبة'' ۔ (المبسوط للسرخسي (11/ 226)
'' و زِيْدَ نخاعُ الصلب''۔ (طحطاوی علی الدر( 4/360)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں