بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور اس شرط پر پالنے کے لیے دینا کہ دودھ اور پہلا بچہ پالنے والا اور باقی بچہ آدھے آدھے ہوں گے


سوال

ہمارے ہاں یہ رائج ہے کہ جانور خرید کر اسے دوسرے بندے کو پالنے کے لیے دیا جاتا ہے اس شرط پر کہ پہلا بچہ اور دودھ  پالنے والے کا ہوگا اور بعد میں جو بچے ہوں  گے وہ مشترکہ ہوں گے،  کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

مذکورہ صورت جائز نہیں ہے،  بلکہ ایسی صورت میں دودھ  اور بچے دونوں مالک کے ہوں گے، اور پالنے والے کو اجرت دی جائے گی، یعنی عام طورپر جانور کے چارہ وغیرہ کے علاوہ جانور پالنے اور رکھنے کی جواجرت بنتی ہے پالنے والااس اجرت کا مستحق ہوگا۔ 

اس کے متبادل جواز کی ممکنہ صورتیں درج ذیل ہیں:

۱۔۔  ایک صورت تو  یہ ہے کہ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔

2۔۔ زید (مثلاً)  اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر عمرو (مثلاً) کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے ،پھر زید عمرو کو وہ پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا،  اس جانورسے  جو بچے   پیدا ہوجائیں، ہر ہر بچے میں زیداور عمرو برابر شریک ہوں گےاور اس طرح اس جانورکے دودھ میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے ۔

3۔۔  زید اور عمرو   دونوں پیسے ملا کرجانور خریدیں، اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا ، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے ، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک کا ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعاً غلط ہے،دونوں ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے ۔

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافاً فالإجارة فاسدة".

(4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، ط: رشیديه)

خلاصۃ الفتاوی ہے :

" رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة والإجارة فاسدة".

(خلاصة الفتاوی، ۳/۱۱4، کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب ومایتصل بها، ط/قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ".

(6/6۲، کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ، ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافاً فالإجارة فاسدة .... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما".

(4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، ط: رشیديه)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ".

(المبسوط للسرخسی، ۱۵/6، کتاب القسمة، ط: دار المعرفة – بيروت، تاريخ النشر: 1414هـ = 1993م)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں