بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جان بچانے کی غرض سے خون دینے سے پہلے روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ کا حکم


سوال

رمضان المبارک کا فرض روزہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بلا عذر توڑ دے تو اس پر قضا اور کفارہ لازم ہوتا ہے، لیکن بعض مرتبہ ایسے اعذار پیش آجاتے ہیں جن کا تعلق اپنی ذات سے نہیں، بلکہ دوسرے کی ذات سے ہوتا ہے، مثلاً کوئی مریض جان بلب ہوجائے اور اس کو خون کی شدید ضرورت ہو اور رمضان المبارک کا مہینہ ہو اور جسے خون دینا ہے وہ روزے سے ہو اور ڈاکٹر اپنی شرائط کے مطابق زور ڈالیں کہ خون دینے والا اولا کوئی جوس وغیرہ پیے، اس کے بعد ہی اس کا خون لیا جائے گا اور کوئی متبادل شکل سامنے نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ روزہ دار شخص مریض کی جان بچانے کے  لیے روزہ توڑ دے تو :

1۔۔  کیا اس پر صرف قضا لازم ہوگی یا کفارہ بھی دینا ہوگا؟

2۔۔  دوسرے کی جان بچانے کے لیے روزہ توڑنے کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

3۔۔  جان بچانے کے  لیے خون دینا واجب ہے یا صرف مباح؟

4۔۔  فقہی ضابطہ:  کفارات شبہ سے ساقط ہوجاتے ہیں اس کا مصداق کیا ہے؟ تو کیا مذکورہ صورت میں بھی ضرورت کی وجہ سے کفارہ کے ساقط ہونے کا حکم دیا جاسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کو خون دینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اور روزے  کے دوران خون دینا جائز بھی ہے، البتہ اتنا خون دینا مکروہ ہے جس سے روزے دار کو کمزوری لاحق ہو جائے ، لیکن اس سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا بأس بالحجامة إن أمن على نفسه الضعف، أما إذا خاف فإنه يكره وينبغي له أن يؤخر إلى وقت الغروب."

 (كتاب الصوم، الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره: 1/199-200، ط: رشيدية)

لیکن خون دینے سے پہلے جوس وغیرہ پلانے کے متعلق ڈاکٹر حضرات کی فراہم کی گئی معلومات کے مطابق خون دینے سے پہلے خون دینے والے کو کچھ بھی نہیں کھلایا پلایا جاتا ہے، بلکہ خون دینے سے پہلے پیٹ خالی ہونا ضروری ہوتا ہے، البتہ خون دینے  کے بعدکمزوری دور کرنے کے  لیے جوس وغیرہ دیا جاتا ہے۔

بہرحال اگر سائل کی ذکر کردہ صورت کے موافق  خون  لینے سے پہلے ڈاکٹر روزہ توڑنے پر زور بھی ڈالے،  تب بھی اس کا تعلق  کمزوری کے اندیشہ سے روزہ توڑنے سے ہے، جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ روزہ دار خون دینے سے پہلے اپنا روزہ بالکل نہ توڑے، البتہ اگر خون دینے کےبعد شدید کمزوری لاحق ہو، جس کی وجہ سے  خون دینے والے کی جان جانے کا اندیشہ ہو یا کسی عضو کے ضائع ہونے خطرہ ہو تو روزہ توڑدینا شرعاً جائز ہی نہیں، بلکہ ضروری ہے۔

کیوں کہ فقہاء نے ایک مسئلہ لکھا ہے کہ: اگر کسی شخص کی کوئی ایسی معاشی مشغولیت ہو جس کی وجہ سے اس کو روزے کی حالت میں شدید کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ ہے، تو ایسا شخص اپنا کام آدھا کردے، مثلاً: اگر نان بائی ہے تو آدھا دن کام کرے اور باقی آدھے دن آرام کرے، تاکہ روزہ پورا کر سکے۔

اسی طرح اگر روزہ رکھنے سے  اس  قدر کمزوری ہے کہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھے، لیکن روزہ پورا کرے، تاکہ دونوں دونوں عبادتیں ادا ہو جائیں۔

اسی طرح محنت مزدوری کرنے والے کے  لیے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ  پیشہ کی مشقت کی وجہ سے بیماری لاحق ہونے کے اندیشہ سے روزہ توڑ دے، بلکہ اس صورت میں بھی روزہ توڑنا ناجائز اور حرام ہے، اور اس سے بھی کفارہ لازم آئے گا۔

درمختار میں ہے:

"[فروع] لايجوز أن يعمل عملًا يصل به إلى الضعف فيخبز نصف النهار ويستريح الباقي، فإن قال: لايكفيني، كُذِّب بأقصر أيام الشتاء، فإن أجهد الحر نفسه بالعمل حتى مرض فأفطر ففي كفارته قولان، قنية. وفي البزازية: لو صام عجز عن القيام صام وصلى قاعدًا جمعًا بين العبادتين."

قال ابن عابدین رحمہ اللہ:

"(قوله: لا يجوز إلخ) عزاه في البحر إلى القنية. وقال في التتارخانية: وفي الفتاوى: سئل علي بن أحمد عن المحترف إذا كان يعلم أنه لو اشتغل بحرفته يلحقه مرض يبيح الفطر، وهو محتاج للنفقة هل يباح له الأكل قبل أن يمرض فمنع من ذلك أشد المنع وهكذا حكاه عن أستاذه الوبري وفيها سألت أبا حامد عن خباز يضعف في آخر النهار هل له أن يعمل هذا العمل؟ قال: لا ولكن يخبز نصف النهار ويستريح في الباقي فإن قال لا يكفيه كذب بأيام الشتاء فإنها أقصر فما يفعله اليوم اهـ ملخصًا."

(كتاب الصوم، فروع في الصيام: 2/420، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المحترف المحتاج إلى نفقته علم أنه لو اشتغل بحرفته يلحقه ضرر مبيح للفطر يحرم عليه الفطر قبل أن يمرض، كذا في القنية."

(كتاب الصوم، الباب الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار: 1/208، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وذكر الكرخي في مختصره: أن المرض الذي يبيح الإفطار هو ما يخاف منه الموت، أو زيادة العلة كائنًا ما كانت العلة. وروي عن أبي حنيفة: أنه إن كان بحال يباح له أداء صلاة الفرض قاعدا فلا بأس بأن يفطر، والمبيح المطلق بل الموجب هو الذي يخاف منه الهلاك لأن فيه إلقاء النفس إلى التهلكة لا لإقامة حق الله تعالى وهو الوجوب، والوجوب لايبقى في هذه الحالة، وإنه حرام فكان الإفطار مباحًا بل واجبًا."

(كتاب الصوم، فصل حكم فساد الصوم: 2/94، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" (ومنها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، ... ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق، كذا في فتح القدير. "

(كتاب الصوم، الباب الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار: 1/207، ط: رشيدية)

 مذکورہ بالا تفصیل کے بعد نمبر وار سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

۱)                صورتِ  مسئولہ میں روزے دار اگر خون دینے سے پہلے روزہ توڑ دے تو قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔   

 ۲/۳)          مذکورہ مسئلہ کا تعلق دوسرے کی جان بچانے کے  لیے روزہ توڑنے سے نہیں ہے، اور نہ ہی اس بات سے ہے کہ جان بچانے کے  لیے خون دینا واجب ہے  یا مباح، بلکہ اس میں خون دینے والے  کی کمزوری کے اندیشے سے ڈاکٹر کا روزہ توڑنے پر مجبور کرنا ہے، جس کا حکم گزر چکا ہے۔

تاہم اگر کسی کی جان بچانے کے  لیے کسی روزہ دار کا روزہ توڑنا ہی ضروری ہو تو ایسی صورت میں شریعت میں روزہ توڑنے کی گنجائش ہے، جیسے: شیرخوار بچے کی ہلاکت کا اندیشہ ہو تو ماں یا دائی کے  لیے روزہ توڑنے کی گنجائش ہے، اور ان پر کوئی کفارہ بھی نہیں ہے۔  لیکن مسئلہ مذکورہ کا تعلق اس بات سے نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(ومنها حبل المرأة، وإرضاعها) الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما أو، ولدهما أفطرتا وقضتا، ولا كفارة عليهما، كذا في الخلاصة."

(كتاب الصوم، الباب الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار: 1/207، ط: رشيدية)

باقی کسی کی جان بچانے کے لیے خون دینا واجب یا لازم نہیں ہے،  بلکہ  صرف جائز  ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين(رد المحتار) میں ہے:

"(وَلَمْ يُبَحْ الْإِرْضَاعُ بَعْدَ مَوْتِهِ) لِأَنَّهُ جَزْءُ آدَمِيٍّ وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِغَيْرِ ضَرُورَةٍ حَرَامٌ عَلَى الصَّحِيحِ شَرْحُ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَفِي الْبَحْرِ: لَايَجُوزُ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ الْمَأْكُولِ كَمَا مَرَّ.

(قَوْلُهُ: وَفِي الْبَحْرِ) عِبَارَتُهُ: وَعَلَى هَذَا أَيْ الْفَرْعِ الْمَذْكُورِ لَا يَجُوزُ الِانْتِفَاعُ بِهِ لِلتَّدَاوِي. قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَأَهْلُ الطِّبِّ يُثْبِتُونَ لِلَبَنِ الْبِنْتِ أَيْ الَّذِي نَزَلَ بِسَبَبِ بِنْتٍ مُرْضِعَةٍ نَفْعًا لِوَجَعِ الْعَيْنِ. وَاخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِيهِ، قِيلَ: لَا يَجُوزُ، وَقِيلَ: يَجُوزُ إذَا عَلِمَ أَنَّهُ يَزُولُ بِهِ الرَّمَدُ، وَلَايَخْفَى أَنَّ حَقِيقَةَ الْعِلْمِ مُتَعَذِّرَةٌ، فَالْمُرَادُ إذَا غَلَبَ عَلَى الظَّنِّ وَإِلَّا فَهُوَ مَعْنَى الْمَنْعِ اهـ. وَلَا يَخْفَى أَنَّ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ لَا يَجُوزُ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ فَإِنَّهُ لَايُشْرَبُ أَصْلًا. اهـ. (قَوْلُهُ: بِالْمُحَرَّمِ) أَيْ الْمُحَرَّمُ اسْتِعْمَالُهُ طَاهِرًا كَانَ أَوْ نَجَسًا ح (قَوْلُهُ: كَمَا مَرَّ) أَيْ قُبَيْلَ فَصْلِ الْبِئْرِ حَيْثُ قَالَ: فَرْعٌ اُخْتُلِفَ فِي التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ. وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ الْمَنْعُ كَمَا فِي إرْضَاعٍ الْبَحْرِ، لَكِنْ نَقَلَ الْمُصَنِّفُ ثَمَّةَ وَهُنَا عَنْ الْحَاوِي: وَقِيلَ: يُرَخَّصُ إذَا عَلِمَ فِيهِ الشِّفَاءَ وَلَمْ يَعْلَمْ دَوَاءً آخَرَ كَمَا خُصَّ الْخَمْرُ لِلْعَطْشَانِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. اهـ. ح."

(3 / 211، باب الرضاع، ط؛ سعید)

۴)       روزے کا کفارہ شبہ کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کا کفارہ کسی فوت شدہ چیز کی تلافی کے لیے نہیں، بلکہ محض زجر  وعتاب کے  لیے مشروع ہے، لہذا حدود کی طرح روزے کا کفارہ بھی شبہ کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔

جس کی مثال یہ ہے کہ: اگر بحالتِ  روزہ بوسہ لیا اور انزال ہو گیا تو قضا لازم آئے گی، کفارہ لازم نہیں آئےگا، کیوں کہ اس میں حقیقتًا جماع نہیں پایا جا رہا ہے، اور کفارہ واجب ہونے کے  لیے ضروری ہے کہ روزے کا منافی حقیقی اور معنوی ہر دو طریقے سے پایا جائے، کیوں کہ کفارات شبہ کی وجہ سے ساقط ہو جاتے ہیں۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"ولو أنزل بقبلة فعليه القضاء لوجود معنى الجماع وهو الإنزال بالمباشرة دون الكفارة؛ لقصور الجناية فانعدم صورة الجماع، وهذا؛ لأن القضاء يكفي لوجوبه وجودُ المنافي صورة أو معنى ولا يكفي ذلك لوجوب هذه الكفارة فلا بد من وجود المنافي صورة ومعنى؛ لأنها تندرئ بالشبهات، بخلاف سائر الكفارات حيث تجب مع الشبهة، والفرق أن الكفارة إنما تجب لأجل جبر الفائت وفي الصوم حصل الجبر بالقضاء فكانت زاجرة فقط فشابهت الحدود فتندرئ بالشبهات ولهذا لا تجب بالإكراه والخطإ بخلاف سائر الكفارات."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده: 1/324، ط: سعيد)

ایک دوسری مثال یہ ہے کہ: کسی شخص نے رمضان کا چاند دیکھا، لیکن حاکمِ  وقت نے اس اکیلے کی گواہی شرعی دلیل کی بنیاد پر غیر معتبر قرار دے کر مسترد کر دی، (اور وہ شرعی دلیل یہ ہے کہ صرف ایک آدمی کی گواہی میں غلطی کا بہت زیادہ امکان ہے)، چنانچہ باقی لوگ تو روزہ نہیں رکھیں گے، لیکن اس پر روزہ رکھنا واجب ہے، البتہ اگر وہ روزہ رکھ کر بلا عذر توڑ دے گا، تو اس پر صرف قضا لازم آئے گی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، کیوں کہ جب حاکمِ  وقت نے شرعی دلیل کی بنیاد پر اس کی گواہی  کو مسترد کر دیا، تو اب اس کی گواہی مشتبہ ہو گئی، اور اس شبہ کی وجہ سے اس پر سے کفارہ ساقط ہو گیا۔

ہدایہ میں ہے:

"قال: «ومن رأى هلال رمضان وحده صام وإن لم يقبل الإمام شهادته»؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته»، وقد رأى ظاهرا وإن أفطر فعليه القضاء دون الكفارة. وقال الشافعي رحمه الله: عليه الكفارة إن أفطر بالوقاع؛ لأنه أفطر في رمضان حقيقة لتيقنه به، وحكما لوجوب الصوم عليه. ولنا: أن القاضي رد شهادته بدليل شرعي وهو تهمة الغلط فأورث شبهة، وهذ الكفارة تندرئ بالشبهات."

(كتاب الصوم، فصل في رؤية الهلال: 1/118، ط: دار إحياء التراث العربي)

درمختار میں ہے:

"(رأى) مكلف (هلال رمضان أو الفطر ورد قوله) بدليل شرعي (صام) مطلقا وجوبا وقيل ندبا (فإن أفطر قضى فقط) فيهما لشبهة الرد. (واختلف) المشايخ لعدم الرواية عن المتقدمين (فيما إذا أفطر قبل الرد) لشهادته (والراجح عدم وجوب الكفارة)."

قال ابن عابدین رحمہ اللہ:

"(قوله: قضى فقط) أي بلا كفارة (قوله: لشبهة الرد) علة لما تضمنه قوله فقط من عدم لزوم الكفارة أي أن القاضي لما رد قوله بدليل شرعي أورث شبهة وهذه الكفارة تندرئ بالشبهات هداية، ولا يخفى أن هذه علة لسقوط الكفارة في هلال رمضان. أما في هلال الفطر فلكونه يوم عيد عنده كما في النهر وغيره وكأنه تركه لظهوره."

(حاشية ابن عابدين:كتاب الصوم: 2/384، ط: سعيد)

خلاصہ یہ کہ دونوں مثالوں میں شرعی دلیل کی وجہ پیدا ہونے والے شبہ سے کفارہ ساقط ہوا ہے۔

 لیکن صورتِ  مذکورہ میں روزہ توڑنے کی نہ تو کوئی شرعی ضرورت ہے، اور نہ ہی روزے دار کی حقیقی کمزوری ہے، بلکہ محض کمزوری کے اندیشہ کی وجہ سے روزہ توڑنا ہے، لہذا اس صورت میں روزہ توڑنا بھی جائز نہیں، اور روزہ توڑنے کی صورت میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں