بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جاری مجری خطا کی دیت


سوال

قتلِ خطا کی دیت کیا  ہے؟  ایک بچی اپنے ماں باپ کے بیچ میں سو رہی تھی، اس دوران صبح کے وقت بچی دم توڑ چکی تھی، اب یہ پتا نہیں کہ بچی ماں کی وجہ سے مری ہے یا باپ کے نیچے آکر مری ہے؟تو دیت کس پر لازم ہوگی اور دیت کیا ہوگی؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر والدین کو صرف  شک ہو  کہ بچہ ان کے نیچے دب کر مرا ہے، یقین نہ ہو مثلاً بچے کے جسم پر ظاہری کوئی اثر وغیرہ نہ ہو  تو شک کا اعتبار نہیں ہے،  اس کی طرف دھیان نہ  دیں۔

2۔ اگر بچے کے جسم پر کچھ نشان یا اثرات ہوں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ بچہ کسی کے نیچے دب کر مرا ہے، لیکن تعیین نہ ہو رہی ہو تو غور و فکر کرکے دیکھا جائے کہ بچہ کس کے نیچے دب کر مرا ہوگا، اگردونوں میں سے کسی کو  یقین یا غالب گمان ہو کہ بچہ اس کے نیچے دب کر فوت ہوا ہےتو یہ صورت "قتل جاری مجری خطا"  کی ہے، اس کاحکم یہ ہے کہ جس کے نیچے دب کر مرا ہے اس  پرکفارہ اور دیت دونوں لازم ہیں، البتہ  اگر بچےکے وارثین  دیت معاف کردیں تو دیت ساقط ہوجائے گی ۔

قتل جاری مجری خطا  کی دیت سو اونٹ یا ایک ہزار دینار یا دس ہزار درہم (جس کا اندازہ جدید پیمانے سے 30.618 کلوگرام چاندی) یا اس کے برابر قیمت ہے۔ اور دیت میں حاصل شدہ مال مقتول کے ورثہ میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہو گا، جو وارث اپنا حصہ معاف کردے گا، اس قدر معاف ہو جائے گا اوراگر سب نے معاف کر دیا تو سب معاف ہو جائے گا۔

نیز   کفارے میں مسلسل ساٹھ روزے رکھنا قاتل پر لازم ہو گا، کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، البتہ عورت  کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا، یعنی اگر کسی عورت سے قتل ہو گیااور وہ 60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے تو60 روزے رکھنے کے دوران ماہ واری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ ماہ واری سے فراغت کے بعد روزوں کو جاری رکھے گی۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰه وَكَانَ اللّٰه عَلِيمًا حَكِيمًا} [سورة النساء، آیت:92]

"الیقین لایزول بالشک، وفيها قواعد ... الثالثة: من شک هل فعل أو لا؟ فالأصل عدمه". (الأشباه والنظائر في الفقه الحنفي، الفن الأول، النوع الأول: القاعدة الثالثة، ص:12، ط:قدیمی کتب خانه)

" (و) الرابع (ما جرى مجراه) مجرى الخطأ (كنائم انقلب على رجل فقتله)؛ لأنه معذور كالمخطئ، (وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة.

 (قوله: والرابع ما جرى مجراه إلخ) فحكمه حكم الخطأ في الشرع، لكنه دون الخطأ حقيقة؛ فإن النائم ليس من أهل القصد أصلاً، وإنما وجبت الكفارة لترك التحرز عن نومه في موضع يتوهم أن يصير قاتلًا، والكفارة في قتل الخطأ إنما تجب لترك التحرز أيضًا، وحرمان الميراث لمباشرة القتل، وتوهم أن يكون متناعسًالم يكن نائمًا قصدًا منه إلى استعجال الإرث، والذي سقط من سطح فوقع على إنسان فقتله أو كان في يده لبنة أو خشبة فسقطت من يده على إنسان أو كان على دابة فأوطأت إنسانًا فقتله مثل النائم؛ لكونه قتلًا للمعصوم من غير قصد كفاية". (الدر المختار،کتاب الجنایات،ج:6،ص:531،ط:سعید)

"الدية (في الخطإ أخماس منها ومن ابن مخاض، أو ألف دينار من الذهب، أو عشرة آلاف درهم من الورق) وقال الشافعي: اثنا عشر ألفًا، وقالا: منها ومن البقر مائتا بقرة، ومن الغنم ألفا شاة، ومن الحلل مائتا حلة، كل حلة ثوبان: إزار ورداء، هو المختار.

(وكفارتهما) أي الخطأ وشبه العمد (عتق قن مؤمن فإن عجز عنه صام شهرين ولاء ولا إطعام فيهما) إذ لم يرد به النص والمقادير توقيفية". (الدر المختار،کتاب الدیات،ج:6،ص:573،574،ط:سعید)

التشريع الجنائي في الإسلام - (3 / 120):

"الركن الثالث: أن يكون بين الخطأ والموت رابطة السببية.

يشترط ليكون الجانى مسئولاً أن تكون الجناية قد وقعت نتيجة لخطئه: بحيث يكون الخطأ هو العلة للموت، وبحيث يكون بين الخطأ والموت علاقة السبب بالمسبب فإذا انعدمت السببية فلا مسئولية على الجاني". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں