بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائز منافع کی مقدار کیا ہے؟


سوال

اسلام میں منافع کتنا جائز ہے؟

جواب

 شریعتِ مطہرہ نے خرید و فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے اور منافع کے حوالہ سے کسی قسم کی پابندی یا حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے،فروخت کرنے والا اورخریدارباہمی رضامندی سے منافع کی کوئی بھی شرح طے کرسکتے ہیں، البتہ اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کی جائے ، کسی کی مجبوری کا  غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے، اس لیے اتنا منافع لینا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کی مصالح کی بھی رعایت رہے، اور اس کو اس سے ضرر نہ پہنچے۔

مسند احمد میں ہے:

"عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَجُلًا جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ! فَقَالَ: بَلْ أَدْعُو، ثُمَّ جَاءَ هُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ! فَقَالَ: بَلْ اﷲُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ، وَإِنِّي لَاَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ لِأَحَدٍ عِنْدِي مَظْلَمَةٌ". ( ٢/ ٣٣٧، رقم الحديث: ٣٤٥٠، ط: موسسة قرطبة مصر)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اشیاء) کے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا، پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 124):
"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں