خرید و فروخت میں شریعت کے مطابق ناجائز منافع کی کیا حد ہے؟ مثلاً ۱۰۰ روپے کی چیز کتنے روپے میں فروخت کرنے پر کمایا جانے والا منافع ناجائز کہلائے گا؟ اگر ۱۰۰ روپے کی چیز کو خرید کر اتنا طویل عرصہ پاس رکھا جائے کہ اس کی قدر بڑھ کر ۲۰۰ ہو گئی ہو تو اب اس کو فروخت کر کے اس پر ناجائز منافع کمانے کی حد کیا ہوگی؟ یعنی اب اسکو کم از کم کتنی قیمت میں فروخت کیا جائےکہ اس پر لیا جانے والا منافع ناجائز ہو گا۔
واضح رہے کہ شریعتِ میں منافع کی کوئی حد مقرر تونہیں ہے،فروخت کرنے والا اورخریدارباہمی رضامندی سے کوئی بھی شرح طے کرسکتے ہیں،البتہ منافع کا مقرر کرنا انتظامی اوراخلاقی دائرے میں ضرور آتا ہے ،اس لیے ایسامنافع مقرر کرنا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کی مصالح کی بھی رعایت رہے۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 124)
(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها.
فتوی نمبر : 144007200241
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن