بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ثیبہ کی کفالت کا مسئلہ


سوال

شریعت میں کب تک ایک عاقل و بالغ کنواری اور نافرمان عورت کی کفالت اس کے والد یا بھائی کے زمے ہے؟ سوال کا پس منظر عرض خدمت ہے۔ ہمارے ایک گھر میں ایک صاحب نے جو اب تقریبًا بہتر برس کے ہیں اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد دوسری پھر اس کی ناکامی پر تیسری اور پھر اس کی بھی ناکامی پر ان کے خاندان والوں نے چوتھی شادی کرادی جو الحمداللہ کامیاب ثابت ہوئی۔ ان کی  پہلی اہلیہ کے انتقال کے وقت ان کے بیٹوں کی عمر بالترتیب11اور 9 برس جب کہ بیٹی کی عمر 7 برس تھی۔ بعد کی شادیوں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بڑے بیٹے کا بھی بچپن میں ہی انتقال ہو گیا،  جب کہ بیٹے اور بیٹی کی عمریں اب بالترتیب 40 اور 38 سال ہے۔

بیٹی (جو ان دنوں 1999 میں تعلیم و تربیت کے سلسلے میں اپنے ننھیال والوں کے ساتھ رہ رہی تھی) نے لوگوں کے بہکاوے میں آ کر اپنی سوتیلی والدہ کی مخالفت کی اور وقت کے ساتھ ساتھ ناپسندیدگی نفرت کی گہری خلیج میں تبدیل ہو گئی۔ خاتون ننھیال والوں سے اختلافات کے باعث ہاسٹل منتقل ہو گئی جب کہ اس دوران اس کے والد اور سوتیلی والدہ اس کے تعلیمی اخراجات باقاعدگی سے بھیجتے رہے۔ جب اس کی تعلیم ختم ہوئی اور اس کو مجبوراً اپنے والد کے گھر آنا پڑا تو اس کی نفرت گھر میں آئے روز کے جھگڑوں کی صورت میں نمودار ہونے لگی۔ اس کے والدین اور بھائی اور دوسرے قریبی رشتہ داروں نے اس کی شادی کی بہتیری کوششیں کیں مگر ان کی بیٹی نے ہر دفعہ رشتہ سے انکار کر دیا۔ اس دوران میں اس کے جھگڑوں کا چرچا پھیلنے کی وجہ سے اب رشتے آنے کا سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔

بیٹی کی طرف سے ذہنی تکالیف سے تنگ آکر بوڑھے والدین بیٹی کا پورشن الگ کر کے اور باقی کو کرائے پر اٹھا کر خود کرائے پر دوسری جگہ منتقل ہو گئے۔ مگر خاتون نے کراۓ داروں کے ساتھ بھی جھگڑوں کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے والدین مجبور ہو کر کراۓ داروں سے فلیٹ خالی کرا کر وہاں واپس منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے۔ والدین نے کوشش کی کہ مرنے کے بعد جو وراثت تقسیم ہونی ہے وہ زندگی ہی میں تقسیم کر کے بیٹی کو اس کا حصہ دے کر الگ کر دیا جائے جبکہ الگ کر کے اس کا نان نفقہ اس کا بھائی وغیرہ بھیجتے رہیں۔ خاتون اپنے بھائی سے بھی شدید نفرت کرتی ہے اور بھائی کے بلانے کے باوجود اس کے ساتھ رہنے سے بھی انکاری ہے جب کہ بھائی کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بد دعائیں الگ دیتی ہے جب کہ وہ 2006 سے 2019 کے اختتام تک اس کا خرچہ اسے پابندی سے بھیجتا رہا ہے۔

خاتون کا کہنا یہ ہے کہ باپ کے گھر میں میرا حصہ ہے وہ مجھے دیا جاے جب ان کے والدین نے حامی بھر لی کہ ٹھیک ہے جو تمہارا شرعی حصہ ہمارے مرنے کے بعد بنتا ہے وہ ہم تمھیں زندگی میں دے دیتے ہیں اور تم جہاں جانا چاہتی ہو وہاں چلی جائو۔ تو اس کے ننھیال والوں نے کہا کہ خاتون ہر صورت میں والد کی ذمہ داری ہے؛ لہذا وہ کسی صورت میں گھر خالی نہیں کرے گی۔ اس کے ساتھ ننہیال والوں نے نانا نانی (جو انتقال فرما چکے ہیں) کی وراثت میں سے بھی خاتون کو بحیثیت وراثت حصہ نہیں دیا (جس میں یہ تخصیص کی جاتی ہے کہ وراثت کی تقسیم اس طرح ہوئی اور یہ تمہارا شرعی حصہ ہے)۔ جب کہ خاتون کے بھائی نے ننہیال والوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے وراثتی حصے سے بھی خاتون کے حق میں دست بردار ہو جاتا ہے اگر سب مل کر خاتون کو ایک فلیٹ دلوا دیں۔ مگر ننہیال والے انکاری ہیں اور بضد ہیں کہ خاتون ہر صورت میں والد کی ذمہ داری ہے، چاہے وہ اپنی مرضی سے شادی سے انکاری ہو۔ اب اس کے بوڑھے والد اس کو الگ کرنا چاہتے ہیں؛ تاکہ بڑھاپے کی ساعتیں بغیر جھگڑوں کے  گزر سکیں۔ آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے!

جواب

واضح رہے کہ  نکاح کرنا سنت رسول اللہﷺ ہے اور نکاح کے بہت سے  فوائد احادیث سے ثابت ہیں،(مثلاً؛ انسان مرد ہو یا عورت نکاح سے با وقار بنتا ہے، فطری تقاضے پورے ہوتے ہیں، غیر فطری تقاضوں سے بچنا آسان ہوتا ہے، ایمان کی سلامتی کا ایک بہت بڑا اور مؤثر ذریعہ نکاح ہے، امت محمدیہ کی بڑھوتری کی سعادت ملتی ہے، بدنگاہی سے بچنے کا بہترین علاج ہے، ثواب ملتا ہے، نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے وغیرہ)  اور جو شخص باوجود استطاعت اور مناسب رشتے موجود ہونے کے بلا عذر نکاح سے بے رغبتی  اور اعراض کرے اس کے بارے میں حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص میرے طریق پر نہیں ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ لڑکی کے گھر والوں کو چاہئے کہ لڑکی کو نکاح کے فوائد  اور نکاح نہ کرنے کے نقصانات بتلا کر نکاح کی ترغیب دیں اورجلد از جلد اس کے نکاح کا انتظام کرے۔

کفالت کا حکم یہ ہے کہ    اگر مذکورہ عورت  کا اپنا مال ہے تو  اس کا خرچہ اس کے اپنے  مال میں لازم ہو گا ، اور اگر  اپنا مال نہیں ہے تو پھر شادی ہو جانے تک اس کے والد پر اس کی کفالت لازم ہوگی ۔

رہائش کا حکم یہ ہے کہ  اگر مذ کو رہ عورت کے متعلق فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو وہ رہائش میں خود مختار ہوگی ، چاہے تو الگ تھلگ رہے یا والد کے ساتھ رہے اور اگر  مذکورہ عورت کے متعلق فتنہ کا اندیشہ ہو تو  اس صورت میں والد اس کو اپنے ساتھ رہائش رکھنے پر مجبور کرسکتے ہیں ۔

باقی بیٹی  کا والد صاحب سے والد صاحب کی جائیداد میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً  درست نہیں ہے ، زندگی میں والد  اپنی جائداد کے بلاشرکت غیرے مالک ہیں،  اولاد کا حق وراثت میں ہوتا ہے اور وراثت کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔

البتہ اگر والد بیٹی  کے مطالبہ پر   اس شرط کے ساتھ اپنی جائیداد میں سے حصہ دینا چاہے کہ والد  کے انتقال کے بعد بیٹی  کا والد  کی جائیداد میں حصہ نہ رہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ ایک اسٹامپ پیپر پر اس طرح کی تحریر لکھی جائے کہ میں (والد ) اپنی بیٹی مسماۃ فلاں  کو اس شرط کے ساتھ حصہ دے رہا ہوں کہ میری موت کے بعد میری جائیداد میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا پھر اسی اسٹامپ پیپر پر بیٹی اس شرط کو قبول کرنا لکھ دے کہ میں اس شرط کو قبول کر کے یہ حصہ  لے رہی ہوں تو اس صورت میں اگر  والد  کا انتقال اپنی  اس بیٹی سے پہلے ہوجائے تو  بعد میں اسےوالد  کی  وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

و في حاشية ابن عابدين :

"قالوا: إن الاشتغال به أفضل من التخلي لنوافل العبادات أي الاشتغال به، و ما يشتمل عليه من القيام بمصالحه، وإعفاف النفس عن الحرام وتربية الولد ونحو ذلك."

(رد المحتار3/ 3ط:سعيد)

وفي صحيح البخاري :

«من استطاع الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم، فإنه له وجاء».

(3/ 26 ط:دار طوق النجاة)

وفي مشكاة المصابيح :

" «أنتم الذين قلتم كذا وكذا أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له لكني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني».

(1/ 52ط:المكتب السلامي)

وفي الفتاوى الهندية :

"و الجارية إن كانت ثيبًا و غير مأمونة على نفسها لايخلى سبيلها و يضمها إلى نفسه، و إن كانت مأمونةً على نفسها فلا حقّ له فيها و يخلى سبيلها و تنزل حيث أحبت، كذا في البدائع.

و إن كانت البالغة بكرًا فللأولياء حقّ الضم، و إن كان لايخاف عليها الفساد إذا كانت حديثة السن، و أماإذا دخلت في السن و اجتمع لها رأيها و عفتها فليس للأولياء الضمّ، و لها أن تنزل حيث أحبت لايتخوف عليها، كذا في المحيط."

(1/ 542.543 ط:دار الفكر)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

" (قوله: والغني في ماله الحاضر) يشمل العقار والأردية والثياب، فإذا احتيج إلى النفقة كان للأب بيع ذلك كله وينفق عليه؛ لأنه غني بهذه الأشياء، بحر و فتح."

(رد المحتار3/ 612ط:سعيد)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(و كذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقًا ... (لايشاركه) أي الأب و لو فقيرًا (أحد في ذلك كنفقة أبويه وعرسه) به يفتى ما لم يكن معسرًا فيلحق بالميت، فتجب على غيره بلا رجوع عليه على الصحيح من المذهب إلا لأم موسرة، بحر.

(قوله: كأنثى مطلقًا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة."

 (رد المحتار3/ 614ط:سعيد)

وفي الفتاوى الهندية :

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة."

(1/ 563ط:ماجدية)

وفي درر الحكام شرح مجلة الأحكام:

"لأن للإنسان أن يتصرف في ملكه الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره. ( انظر المادة 1192 )"

(1/ 473 ط:دار الکتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و اعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئًا كالدار على أن لايكون له في سائر التركة حق يجوز، و قيل: هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه، كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل: جاز و به أفتى بعضهم."

( الدرالمختار مع شرحہ رد المحتار، باب الوصایا، ج: ۶ِ ص: ۶۵۵،ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں