بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاقوں کے بعد حلالے کی شرط کے ساتھ نکاح کا حکم


سوال

مجھے فتوی نمبر 144104200293 کا  واضح جواب نہیں ملا۔

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ عدت گزرنے کے بعد (پہلے شوہر کی شرکت کے بغیر) کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے، اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد اسے اتفاقی طور پر طلاق دےدے تو دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد  یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

لہذا آپ کے لیے مذکورہ عورت سے اس کی عدت گزرنے کے بعد حلالہ کی نیت یا شرط کے ساتھ نکاح کرنا درست نہیں ہے، بلکہ سخت گناہ کی بات ہے۔ البتہ اگر حلالہ کی نیت  اور شرط کے بغیر  آپ مذکورہ مطلقہ عورت سے اس کی عدت گزرنے کے بعد باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں اور زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد اپنی مرضی سے انہیں طلاق دے دیں تو عدت گزارنے کے بعد وہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

مسند أحمد میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له". (8/ 266)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وكره) التزوج للثاني (تحريمًا)؛ لحديث: لعن المحلل والمحلل له (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول)؛ لصحة النكاح وبطلان الشرط، فلايجبر على الطلاق، كما حققه الكمال، خلافًا لما زعمه البزازي، ومن لطيف الحيل قوله: إن تزوجتك وجامعتك أو أمسكتك فوق ثلاث مثلاً فأنت بائن، ولو خافت أن لايطلقها تقول: زوجتك نفسي على أن أمري بيدي، زيلعي. وتمامه في العمادية. (أما إذا أضمرا ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورًا)؛ لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر، ذكره البزازي".

(الشامیة، كتاب الطلاق، باب الرجعة ۳/ ۴۱۵ ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم

جواب

آپ کے سابقہ سوال کے جواب میں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ شرعی حکم لکھ دیا گیا ہے کہ  

’’اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ عدت گزرنے کے بعد (پہلے شوہر کی شرکت کے بغیر) کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے، اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد اسے اتفاقی طور پر طلاق دےدے تو دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد  یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

لہذا آپ کے لیے مذکورہ عورت سے اس کی عدت گزرنے کے بعد حلالہ کی نیت یا شرط کے ساتھ نکاح کرنا درست نہیں ہے، بلکہ سخت گناہ کی بات ہے۔ البتہ اگر حلالہ کی نیت  اور شرط کے بغیر  آپ مذکورہ مطلقہ عورت سے اس کی عدت گزرنے کے بعد باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں اور زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد اپنی مرضی سے انہیں طلاق دے دیں تو عدت گزارنے کے بعد وہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے نکاح کرسکتی ہے‘‘۔

اب بھی آپ نے دوبارہ یہی سوال  دہرایاہے کہ 

’’اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ عدت گزرنے کے بعد (پہلے شوہر کی شرکت کے بغیر) کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے، اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد اسے اتفاقی طور پر طلاق دےدے تو دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد  یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی؟ “

اس مذکورہ جواب میں آپ کے سوال کا جواب واضح ہے کہ پیشگی حلالہ کی شرط اور ذکر کے ساتھ یوں نکاح کرنا  گناہ ہے۔  گزارش ہے کہ سابقہ فتوی کو دوبارہ بغور ملاحظہ فرمالیجیے یا کسی عالم سے سمجھ لیجیے۔ 

مسند أحمد میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له". (8/ 266)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وكره) التزوج للثاني (تحريمًا)؛ لحديث: لعن المحلل والمحلل له (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول)؛ لصحة النكاح وبطلان الشرط، فلايجبر على الطلاق، كما حققه الكمال، خلافًا لما زعمه البزازي، ومن لطيف الحيل قوله: إن تزوجتك وجامعتك أو أمسكتك فوق ثلاث مثلاً فأنت بائن، ولو خافت أن لايطلقها تقول: زوجتك نفسي على أن أمري بيدي، زيلعي. وتمامه في العمادية. (أما إذا أضمرا ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورًا)؛ لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر، ذكره البزازي". (الشامیة، كتاب الطلاق، باب الرجعة ۳/ ۴۱۵ ط:سعيد)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں