بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد مسلک تبدیل کرنا


سوال

تین طلاق کے بارے میں اسلام کے کیا احکامات ہیں؟  کیا ایک شخص کسی خاص وجہ سے فقہ تبدیل کر سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں تین طلاق ایک ساتھ دینا انتہائی ناپسندیدہ اور ممنوع ہے، تاہم ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ طلاق کے حوالے سے  شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ کی صورت نہ ہو تو  ایسے طہر (پاکی کے ایام) میں ایک طلاق دے کر چھوڑ دے جس  میں صحبت نہ کی ہو، اور عدت گزرنے تک رجوع نہ کرے، عدت گزرنے کے  ساتھ ہی عورت نکاح سے نکل کر اپنے فیصلے میں آزاد ہوجائے گی، اس صورت میں اگر زوجین  میں  سے کسی کو بھی ندامت و پشیمانی ہوگی انہیں رجوع کا حق رہے گا، اگر عدت کے دوران انہیں احساس ہوجائے تو اس صورت میں صرف زبانی یا عملی رجوع ہی کافی ہوگا، اور عدت گزرنے کے بعد شرعی گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کافی ہوگا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے، دوسرے  طہر میں دوسری طلاق دے، تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے، اور اس دوران بیوی سے تعلق قائم نہ کرے، تیسرے طہر  کے بعد ایام گزرتے ہی وہ عورت بائنہ ہوجائے گی، اس صورت میں دو طلاقیں دینے تک شوہر کو رجوع کا حق رہتاہے، لہٰذا اگر  ابتدا میں یہ فیصلہ جذباتی ہو تو بھی موقع ہوتاہے، لیکن جب شوہر تیسرے طہر میں تیسری طلاق بھی دے دیتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ جذباتی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ شعوری طور پر سوچ  وبچار کے بعد مرد بیوی کو نکاح سے نکال  رہا ہے۔

اگر کوئی شخص ان شرعی احکام و رعایات کا فائدہ نہ اٹھائے اور جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے اپنی بیوی کو ایک ہی جملے میں تین طلاقیں دے دے یا اپنی مدخول بہا بیوی (جس کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم ہوئے ہوں) کو ایک ہی مجلس میں اکھٹی تینوں طلاقیں دے دے تو قرآنِ کریم، احادیثِ مبارکہ، اقوالِ صحابہ کرام اور چاروں ائمہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، پھر رجوع کرنا جائز نہیں ہوتا اور مطلقہ کے لیے اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوتا ہے۔

البتہ مطلقہ ثلاثہ عدت گزار کر اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے اور  اس نکاح میں پہلے شوہر کا کردار نہ ہو، اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) ہوجائے، پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اگر اسے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے، پھر اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے ۔

ایک ساتھ  تینوں طلاقیں دے دینا شرعاً ناجائز ہے، طلاق دینے والا گناہ گار ہوتا ہے اور ایسی طلاق کو طلاقِ بدعی کہا جاتا ہے تا ہم اس کے باوجود بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔

اکھٹی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینا اور ایسے فتویٰ پر عمل کرنا قطعاً جائز نہیں، تین طلاقوں کے بعد بھی دوبارہ ساتھ  رہیں گے تو یہ تعلق بدکاری کے حکم میں ہوگا۔

اوپر بیان ہوا کہ جمہور ائمہ مجتہدین کے نزدیک اکھٹی دی گئیں تینوں طلاقیں تین طلاقیں ہی ہوتی ہیں، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، البتہ روافض اور غیر مقلدین کے نزدیک ایک ہوتی ہیں، اور جمہور کے مقابلے میں ان کا قول معتبر نہیں ہے۔

نیز اگر کوئی شخص دنیاوی اغراض کی خاطر فقہ تبدیل کرتا ہے تو آخر میں ایمان کے سلب ہونے کا خطرہ ہے، عدالت کو تعزیری سزا دینے کا اختیار ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَه} (سورۃ البقرۃ،آیۃ:230)

صحیح البخاری میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن يوسف أخبرنا مالك عن ابن شهاب أن سهل بن سعد الساعدي أخبره أن عويمرًا العجلاني جاء إلی عاصم بن عدي الأنصاري فقال له: يا عاصم أرأيت رجلاً وجد مع امرأته رجلاً أيقتله فتقتلونه أم کيف يفعل؟ سل لي يا عاصم عن ذلك رسول الله صلی الله عليه وسلم! فسأل عاصم عن ذلك رسول الله صلی الله عليه وسلم، فکره رسول الله صلی الله عليه وسلم المسائل وعابها حتی کبر علی عاصم ما سمع من رسول الله صلی الله عليه وسلم، فلمّا رجع عاصم إلی أهله جاء عويمر، فقال: يا عاصم ماذا قال لك رسول الله صلی الله عليه وسلم؟ فقال عاصم: لم تأتني بخير قد کره رسول الله صلی الله عليه وسلم المسألة التي سألته عنها، قال عويمر: والله لا أنتهي حتی أسأله عنها، فأقبل عويمر حتی أتی رسول الله صلی الله عليه وسلم وسط الناس، فقال: يا رسول الله أرأيت رجلاً وجد مع امرأته رجلاً أيقتله فتقتلونه أم کيف يفعل؟ فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم: قد أنزل الله فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها، قال سهل: فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله صلی الله عليه وسلم، فلما فرغا قال عويمر: کذبت عليها يا رسول الله إن أمسکتها، فطلقها ثلاثًا قبل أن يأمره رسول الله صلی الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: فکانت تلك سنة المتلاعنين". 

(کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، ج2/791، مکتبہ:قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

ترجمہ: عبداللہ بن یوسف، مالک، ابن شہاب، سہل بن سعد ساعدی سے روایت کرتے ہیں کہ عویمرعجلانی، عاصم بن عدی انصاری کے پاس آئے اور ان سے پوچھا اے عاصم! بتاؤ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو پائے اگر وہ اس کو قتل کر دیتا ہے تو تم اسے قصاص میں قتل کردیتے ہو پھر وہ (بیچارہ) کیا کرے، اے عاصم اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری خاطر دریافت کر، عاصم نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے ان مسئلوں کو (جو بلاضرورت پوچھے جائیں) برا جانا اور معیوب سمجھا، عاصم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنی وہ ان کو گراں گزری جب عاصم اپنے گھر واپس ہوئے تو عویمر نے آکر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا: عاصم نے فرمایا تم میرے پاس اچھی چیز نہیں لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس سوال کو جو میں نے آپ سے کیا برا سمجھا ہے، عویمر نے کہا میں باز نہیں آؤں گا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ نہ لوں، چنانچہ عویمر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور لوگوں کی موجودگی میں پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے اور وہ اس کو قتل کردے تو آپ لوگ اس سے قصاص لیتے ہیں بتائیے پھر وہ کیا کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے متعلق اور تمہاری بیوی کے متعلق اللہ کا حکم نازل ہوچکا ہے، جاؤ اس کو لے کر آؤ، سہل نےفرمایا کہ پھر ان دونوں نے لعان کیا اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، جب دونوں لعان سے فارغ ہوگئے، تو عویمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اس کو روک لوں، تو میں جھوٹا ہوں گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے اس کو تین طلاق دے دیں، ابن شہاب نے کہا کہ لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ ہوگیا۔

وفیه أیضاً:

"حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أخبرته أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلی رسول الله صلی الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن رفاعة طلقني فبت طلاقي وإني نکحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: لعلك تريدين أن ترجعي إلی رفاعة؟! لا حتی يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته".

 (کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، ج2/791، مکتبہ:قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

ترجمہ: سعید بن عفیر، لیث، عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! رفاعہ نے مجھے طلاق دیدی اور طلاق بتہ دی، میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر قرظی سے نکاح کیا لیکن اس کے پاس کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے یعنی نامرد ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تو رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہے؟ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تجھ سے اور تو اس سے لطف اندوز نہ ہولے۔

وفیه أیضاً:

"حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثًا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»".

 (کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، ج2/791، مکتبہ:قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

ترجمہ: محمد بن بشار، یحیی ، عبیداللہ ، قاسم، بن محمد، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو اس عورت نے (دوسرا) نکاح کرلیا، پھر اس نے بھی طلاق دے دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں جب تک کہ اس کا شوہر اس سے لطف اندوز نہ ہو لے جس طرح پہلا شوہر لطف اندوز ہوا تھا۔

سنن أبی داؤد میں ہے:

"حدثنا محمد بن عبد الملك بن مروان، حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن غير واحد عن طاووس، أن رجلاً يقال له: أبو الصهباء كان كثير السؤال لابن عباس، قال: أما علمت أن الرجل كان إذا طلق امرأته ثلاثًا قبل أن يدخل بها جعلوها واحدةً على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وصدرًا من إمارة عمر؟ قال ابن عباس: بلى، كان الرجل إذا طلق امرأته ثلاثًا قبل أن يدخل بها جعلوها واحدةً على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وصدرًا من إمارة عمر، فلما رأى الناس - يعني: عمر - قد تتايعوا فيها قال: أجيزوهن عليهم".

 (کتاب الطلاق،باب بقیۃ نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث،ج۱/۳۱۷،مکتبہ:رحمانیہ لاہور)

ترجمہ:طاؤسؒ کہتے ہیں کہ ابو الصہباء نامی ایک شخص حضرت ابن عباسؓ سے بہت زیادہ سوال کرتا تھا، اس نے کہا:کیا آپ کو علم ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو جماع سے پہلے تین طلاقیں دے دیتا تو ایسی طلا ق کو رسول اللہ ﷺ،ابو بکرؓ اور اوائلِ دورِ عمر میں ایک ہی قرار دیا کرتے تھے؟ابنِ عباس نے کہا:ہاں!آدمی جب اپنی بیوی کو جماع سے پہلے تین طلاقیں دے دیتا تھا تو عہدِ رسالت،عہدِ ابی بکرؓ اور ابتدائے عہدِ عمر میں اس کو ایک ہی قرار دیتے تھے، حضرت عمرؓ نے جب دیکھا کہ لوگ مسلسل طلاق دینے لگے ہیں تو انہوں نے کہا:انہیں پر نافذ کرو۔

مصنف ابنِ أبی شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: نا علي بن مسهر، عن شقيق بن أبي عبد الله، عن أنس، قال: «كان عمر إذا أتي برجل قد طلق امرأته ثلاثًا في مجلس أوجعه ضربًا وفرق بينهما»".

(کتاب الطلاق،من كره أن يطلق الرجل امرأتہ ثلاثا فی مقعد واحد، وأجاز ذلك علیہ،ج۴/۶۱،مکتبہ:الرشد)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى العدد فهو إيقاع الثلاث أو الثنتين في طهر واحد لا جماع فيه سواء كان على الجمع بأن أوقع الثلاث جملة واحدة أو على التفاريق واحدًا بعد واحد بعد أن كان الكل في طهر واحد وهذا قول أصحابنا".

 (کتاب الطلاق،فصل فی الفاظ طلاق البدعۃ، ج۳/۹۴، مکتبہ: ایچ ایم سعید)

الفتاویٰ الھندیۃ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولاً بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. ويشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل وهو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز".

 (کتاب الطلاق،فصل فیماتحل بہ المطلقہ ومایتصل بہ،ج۱/۴۷۳،مکتبہ: ماجدیۃ کوئٹہ)

وفیہ أیضاً:

"(وأما البدعي) ... (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا".

 (کتاب الطلاق،الطلاق البدعی،ج۱/۳۴۹،مکتبہ:ماجدیۃ کوئٹہ)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضًا حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ... وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}".

 (فصل فی حكم الطلاق البائن،ج۳/۱۸۷،مکتبہ:ایچ ایم سعید)

الفتاویٰ التاتار خانیۃ میں ہے:

"وان کان الطلاق ثلاثاً في الحرة أو ثنتین في الأمة لم تحل له حتٰی تنکح زوجاً غیره نکاحاً صحیحاً ویدخل بها ثم یطلقها أو یموت عنها و الشرط الإیلاج دون الإنزال".

 (کتاب الطلاق، الفصل الثالث و العشرون في المسائل المتعلقة بنکاح المحلل و مایتّصل به، ج۳/۶۰۳،مکتبة: إدارة القرآن و العلوم الإسلامیة)

الفتاویٰ الھندیۃ میں ہے:

"وإذا قال لامرأته: أنت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولةً طلقت ثلاث".

(الفصل الاول فی الطلاق الصریح،ج۱/۳۵۵،مکتبہ: رشیدیۃ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قال لزوجته غير المدخول بها: أنت طالق) ... (ثلاثاً) ... (وقعن) ... (وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل وعم التفريق".

وفي رد المحتار:

"(قوله: وإن فرق بوصف) نحو أنت طالق واحدة وواحدة وواحدة، أو خبر نحو: أنت طالق طالق طالق، أو أجمل نحو: أنت طالق أنت طالق أنت طالق ح، ومثله في شرح الملتقى".

 (باب الطلاق غیر مدخول بھا،ج۳/۲۸۶،۲۸۵،۲۸۴، مکتبہ:ایچ ایم سعید)

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"(قوله: وإن فرق بانت بواحدة) أي وإن فرق الطلاق بغير حرف العطف ويمكن جمعه بعبارة واحدة فإنها تبين بالأولى لا إلى عدة فلا يقع ما بعده إذ ليس في آخر كلامه ما يغير أوله ليتوقف عليه نحو أنت طالق طالق طالق أو أنت طالق أنت طالق أنت طالق قيدنا بكونه بغير حرف العطف لأنه لو فرقه بحرف العطف فسيذكره المصنف قريبا فإدخاله هنا في كلامه كما فعل الشارح مما لاينبغي وقيدنا بكونه يمكن جمعه لأنه لو قال: أنت طالق أحد عشر وقع الثلاث إذ لايمكن جمع الجزأين بعبارة واحدة أخصر منها عند قصده هذا العدد المخصوص من حيث اللغة، وإن كان الشارع لايعتبر ما زاد على الثلاث وقيد بغير المدخول لأن المدخولة يقع عليها الكل".

 (فصل فی الطلاق قبل الدخول،ج۳/۳۱۵،مکتبہ:دار الكتاب الإسلامی)

وفي الدر المختارللحصکفي:

"ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر، سراجية".

وفی رد المحتار لابنِ عابدین:

"مطلب فيما إذا ارتحل إلى غير مذهبه

(قوله: ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر) أي إذا كان ارتحاله لا لغرض محمود شرعًا، لما في التتارخانية: حكي أن رجلاً من أصحاب أبي حنيفة خطب إلى رجل من أصحاب الحديث ابنته في عهد أبي بكر الجوزجاني فأبى إلا أن يترك مذهبه فيقرأ خلف الإمام، ويرفع يديه عند الانحطاط ونحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشيخ بعدما سئل عن هذه وأطرق رأسه: النكاح جائز ولكن أخاف عليه أن يذهب إيمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بمذهبه الذي هو حق عنده وتركه لأجل جيفة منتنة، ولو أن رجلاً برئ من مذهبه باجتهاد وضح له كان محمودًا مأجورًا.

أما انتقال غيره من غير دليل بل لما يرغب من عرض الدنيا وشهوتها فهو المذموم الآثم المستوجب للتأديب والتعزير لارتكابه المنكر في الدين واستخفافه بدينه ومذهبه اهـ ملخصًا.

 وفيها عن الفتاوى النسفية: الثبات على مذهب أبي حنيفة خير وأولى، قال: وهذه الكلمة أقرب إلى الألفة اهـ: وفي آخر التحرير للمحقق ابن الهمام: مسألة لايرجع فيما قلد فيه أي عمل به اتفاقًا، وهل يقلد غيره في غيره؟ المختار نعم للقطع بأنهم كانوا يستفتون مرةً واحدًا ومرةً غيره غير ملتزمين مفتيًا واحدًا فلو التزم مذهبًا معينًا كأبي حنيفة والشافعي، فقيل: يلزم، وقيل: لا، وقيل" مثل من لم يلتزم، وهو الغالب على الظن لعدم ما يوجبه شرعًا اهـ ملخصًا قال شارحه المحقق ابن أمير الحاج: بل الدليل الشرعي اقتضى العمل بقول المجتهد وتقليده فيه فيما احتاج إليه وهو -{فاسألوا أهل الذكر} [النحل: 43]- والسؤال إنما يتحقق عند طلب حكم الحادثة المعينة، فإذا ثبت عنده قول المجتهد وجب عمله به وأما التزامه، فلم يثبت من السمع اعتباره ملزمًا إنما ذلك في النذر، ولا فرق في ذلك بين أن يلتزمه بلفظه أو بقلبه على أن قول القائل مثلاً قلدت فلاناً فيما أفتى به تعليق التقليد والوعد به ذكره المصنف. اهـ".

 (کتاب الحدود، باب التعزیر، مطلب فیما إذا ارتحل إلى غير مذهبه، ج4/80، مکتبه:ایچ ایم سعید)

 فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144012200975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں