بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق میں اہلِ حدیث کا فتوی ماننا


سوال

میں نے اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں لکھ کر دے دی تھیں. پھر میں نے فتویٰ لیے تو مجھے آپ لوگوں نے کہا کہ طلاق ہو گئی ہے،  پھر میں اہلِ حدیث والوں کے پاس گیا انہوں نے کہا کہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے،  میں نے ان کافتوی مان لیا ہے۔

اب آپ ہی بتائیں کہ میں نے ان کا فتوی مان کر کیا گناہ کیا ہے؟  یا میں دین سے نکل گیا ہوں؟  آپ میری راہ نمائی کریں کہ میں نے اپنے  2  بچوں کی خاطر ٹھیک کیا یا غلط کیا؟

جواب

تین طلاق واقع ہوجانے کے بعد کسی کا فتویٰ مان لینے سے تین طلاقیں ختم نہیں ہوجائیں گی؛ اس لیے کہ چاروں ائمہ کرام کے ہاں تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں، ایک نہیں، سعودی عرب کے کی عدالت اور وہاں کے مفتیانِ کرام کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔  اب اگر آپ اسی حالت میں بیوی کے ساتھ رہیں گے تو  گناہ ہی ہوگا۔بچوں کی خاطر آخرت کا عذاب مول لینا کون سی عقل مندی ہے۔

حدیثِ مبارک  کا مفہوم ہے کہ  قیامت کے قریب ایسا بھی ہوگا کہ لوگ اپنی بیویوں سے زنا کریں گے،یعنی بیوی کو طلاق دینے کے باوجود اس سے خواہش پوری کریں گے۔ 

نیز  فقہائے کرام نے ایسے لوگوں کے بارے میں جو محض اپنی غرض کو پورا کرنے کے لیے مسلک بدلتے ہیں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ موت کے وقت ان کے ایمان کے فوت ہو جانے کا خطرہ ہے۔

"... قُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَهُمْ مُسْلِمُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَالْقُرْآنُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَأَنَّى ذَلِكَ؟ قَالَ: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يُطَلِّقُ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ، ثُمَّ يَجْحَدُهَا طَلَاقَهَا، فَيُقِيمُ عَلَى فَرْجِهَا، فَهُمَا زَانِيَانِ مَا أَقَامَا". (أخرجه الطبراني في “المعجم الكبير” (10/228)، وفي “المعجم الأوسط” (4861)

فتاویٰ شامیمیں ہے:

"(قوله: ارتحل إلی مذهب الشافعي یعزر)  أي إذا کان ارتحاله لالغرض محمود شرعاً لما في التاتارخانیة: حکي أن رجلًا من أصحاب أبي حنیفة خطب إلی رجل من أصحاب الحدیث ابنته في عهد أبی بکر الجوزجاني فأبی إلا أن یترك مذهبه فیقرأ خلف الإمام ویرفع یدیه عند الانحطاط ونحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشیخ بعد ما سئل عن هذه وأطرق رأسه: النکاح جائز، ولکن أخاف علیه أن یذهب إیمانه وقت النزع؛ لأنه استخفّ بمذهبه الذي هو حقّ عنده وترکه لأجل جیفة منتنة ... أما انتقال غیره من غیر دلیل بل لما یرغب من غرض الدنیا وشهوتها فهو مذموم الآثم المستوجب للتأدیب والتعزیر، لارتکابه المنکر في الدین واستخفافه بدینه ومذهبه الخ ملخصًا". (الفتاوی الشامیة، باب التعزیر، مطلب فیما إذا ارتحل إلی غیر مذهبه ج: ٢،ص:٨٠،ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں