اگر کوئی تین طلاق دے پھر شرمندہ ہو اور رجوع کی غرض سے مسلک بدل لے اہلِ حدیث ہو جاۓ تو کیا یہ ٹھیک ہے اور کیا مسلک بدلنے سے اسے کوئی فائدہ ہو گا؟
تین طلاقیں خواہ ایک مجلس میں ہوں یا مختلف مجالس میں بہر صورت واقع ہوجاتی ہیں، تین طلاق کے وقوع پر ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کا اجماع ہے، اسی کے مطابق سعودی عرب کے سرکاری دارالافتاء سے اجماعی فتویٰ تحقیق کے ساتھ شائع ہوچکا ہے۔ تمام معتبر اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں، لہٰذا اب اس کے خلاف کسی کے فتویٰ دینے کا اعتبار نہیں ہے، نیز طلاق دینے کےبعد کسی کے فتوی دینے سے یہ طلاقیں واپس نہیں ہوسکتیں۔ اور طلاق دینے والے کا مسلک تبدیل کرنا اس کے لیے قطعاً کار آمد نہیں ہوگا، اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہوگا۔
دنیاوی اغراض کے لیے اپنا مسلک تبدیل کر لینا خدا نخواستہ خاتمہ بالخیر سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 80):
"(قوله: ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر) أي إذا كان ارتحاله لا لغرض محمود شرعًا، لما في التتارخانية: حكي أن رجلًا من أصحاب أبي حنيفة خطب إلى رجل من أصحاب الحديث ابنته في عهد أبي بكر الجوزجاني فأبى إلا أن يترك مذهبه فيقرأ خلف الإمام، و يرفع يديه عند الانحطاط و نحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشيخ بعدما سئل عن هذه و أطرق رأسه: النكاح جائز، و لكن أخاف عليه أن يذهب إيمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بمذهبه الذي هو حقّ عنده، و تركه لأجل جيفة منتنة، و لو أن رجلًا برئ من مذهبه باجتهاد وضح له كان محمودًا مأجورًا.
أما انتقال غيره من غير دليل بل لما يرغب من عرض الدنيا و شهوتها فهو المذموم الآثم المستوجب للتأديب والتعزير لارتكابه المنكر في الدين و استخفافه بدينه و مذهبه اهـ ملخصًا."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200507
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن