بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق


سوال

 میرے گھر والوں اور میرے سسرال دونوں کی طرف سے طلاق کے لیے دباؤ تھا اور میں بہت بے بس تھا اور میں نے نیٹ پر دیکھا کہ  شرط سے طلاق دی جاۓ تو شرط نہ رکھی جاۓ طلاق نہیں ہوتی اور ایک وقت میں جتنی بھی طلاق دو، وہ ایک ہی ہوتی ہے اور رجوع ہو جاتا ہے تو میں نے پھر فون کال پر گھر والوں کے سامنے کہا میں تمہیں تین شرط سے طلاق دیتا ہو ں، یہ لفظ تین بار بولے کیو ں کہ امی کہہ رہی تھیں بولو اور پھر میری امی بولی اسے کہو طلاق طلاق طلاق پھر میں نے یہ الفاظ بھی دہرا دیے اور کال بند کردی اور اگر میں ایسا نہ کرتا بہت غلط ہوتا، مجھے مجبوراً کرنا پڑا اور پھر اُسی وقت بیوی کو میسج کر دیا میں نے طلاق نہیں دی تو وہ مجھ سے اُس وقت تو راضی ہو گئی کہ  میری امی کو مناؤ اور جب میں نے کال کی ساس ماں کو اُس کے بعد میری ساس نے میری بیوی کو دوبارہ بھڑکا کر ورغلا کر ناراض کر دیا، اب میری بیوی پھر ناراض ہوگئی کہ تم طلاق دے چکے ہو اب میں نے باقاعدہ طلاق تو نہیں دی، نہ دل سے نہ ارادہ سے، مگر پھر بھی میں نے یہ میسج کر دیا، میں تم سے رجوع کرتا ہو ں وغیرہ وغیرہ. اب میں بہت پریشان ہوں، میرا نکاح بر قرار ہے؟ میری راہ نمائی کریں میں کیا کروں؟ 

جواب

ایسے نازک مسئلہ میں علماءِ کرام سے براہِ راست  پوچھے بغیر  اپنی سمجھ سے کوئی بھی اقدام  نقصان دہ ہوتا ہے، مذکورہ صورت میں آپ کی بیوی پر تین طلاق واقع ہو چکی ہیں، اب نہ تو رجوع جائزہے، اور نہ  آپ دونوں کا دوبارہ نکاح ہوسکتاہے۔  البتہ اگر بیوی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرے اور دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرکے از خود طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے اور اس کی عدت بھی گزر جائے تو آپ کے لیے سابقہ بیوی سے نکاح کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں