بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین دن سے کم میں قرآن پاک ختم کرنا


سوال

اگر ایک دن میں پورا قرآن  پڑھنا غیر اولیٰ ہے تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایک دن میں دو قرآن کیسے ختم فرمایا کرتے تھے؟

جواب

بعض روایات میں تین دن سے کم میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی ممانعت آئی ہے، بعض میں سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کا ذکر ہے، صحیح بخاری میں ہے:

"واقرأ في كل سبع ليال مرةً»..." (صحيح البخاري (6/ 196)

یعنی ہر سات دن میں ایک قرآن ختم کرو۔

قال أبو عبد الله: " وقال بعضهم: في ثلاث وفي خمس وأكثرهم على سبع "

امام بخاری رحمہ فرماتے ہیں: بعض راویان حدیث کی روایت میں ہے کہ  قرآن مجید تین دنوں میں مکمل کرنا چاہیے ، بعض پانچ دنوں کا کہتے ہیں اور اکثر راوی حضرات سات دن والی روایت نقل کرتے ہیں۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ تکمیلِ قرآن کریم کے لیے دنوں کی کوئی خاص حد مقرر نہیں جس میں کمی یا اضافہ نہ ہوسکتا ہو۔  بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ عموماً دنیوی مشاغل کے ساتھ اتنے کم وقت میں قرآنِ مجید ختم کیا جائے تو تلاوت کا حق ادا نہیں ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے اس سے کم وقت میں قرآنِ پاک مکمل پڑھ لے تو اسے ممنوع نہیں کہا جائے گا، چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے باوجود امت کے اَکابرین سے بکثرت منقول ہے کہ وہ ایک یا دو دن میں قرآنِ پاک ختم فرمایا کرتے تھے جیسا کہ امام اسود  سے  منقول ہے۔ 

الطبقات الكبرى لابن سعد (6/ 73):
"عن إبراهيم عن الأسود أنه كان يختم القرآن في شهر رمضان في كل ليلتين، وكان ينام ما بين المغرب والعشاء".

بلکہ سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی روایت کو اکثر راویوں کی روایت قرار دینے کے باوجود خود امام بخاری رحمہ اللہ سے ایک رات میں مکمل قرآنِ مجید  پڑھنا منقول ہے، نیز ابن سیرین، سعید بن جبیر رحمہم اللہ کے متعلق منقول ہے کہ یہ حضرات ایک رات بلکہ ایک رکعت میں پورا قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔

تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 84):
"عن ابن سيرين: أن تميماً الداري قرأ القرآن في ركعة .... عن سعيد بن جبير: أنه قال: قرأت القرآن في ركعة في البيت -يعني الكعبة-".

تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 85):
"وعن أبي عبد الله البخاري -صاحب الصحيح-: أنه كان يختم في الليلة ويومها من رمضان ختمةً. ومن غريب هذا وبديعه ما ذكره الشيخ أبو عبد الرحمن السلمي الصوفي قال: سمعت الشيخ أبا عثمان المغربي يقول: كان ابن الكاتب يختم بالنهار أربع ختمات، وبالليل أربع ختمات".

اسی طرح امام مجاہد کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مغرب اور عشاء کے درمیان پورا قرآن ختم فرما لیا کرتے تھے۔

تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 84):
"وقد روى ابن أبي داود عن مجاهد أنه كان يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء".

اب یہ کہنا مشکل ہے  کہ امت کے ان اکابر کا عمل حدیث کے خلاف تھا، کیوں کہ یہ حضرات تو سنتِ نبویہ پر عمل کے حریص تھے، لہذا اس باب میں جو احادیث مروی ہیں اس کے مختلف مطالب بیان کیے  گئے ہیں، انہی مطالب میں سے ایک مطلب  مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، چنانچہ  تین دن میں قرآن ختم کرنے کی حدیث سے متعلق  اپنی کتاب ’’مقامِ ابی حنیفہ‘‘  میں لکھتے ہیں:

’’اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کےعلاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد (تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم نہ کرو ) امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے، تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآنِ کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیوں کہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآنِ کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے ؟‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص 243 )

مذکورہ بالا تمام  عبارتوں کو نقل کرنے کے بعد امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ وہ حضرات تھے جواس مختصر وقت میں ختم کرنے کے باوجود قرآن کو سمجھ کر پڑھ سکتے تھے، لہذا جو بھی ایسی قدرت پائے اس کے لیے  اتنے عرصہ میں قرآن ختم کرنا قابلِ ملامت نہیں۔

"وهذا نادر جداً. فهذا وأمثاله من الصحيح عن السلف محمول إما على أنه ما بلغهم في ذلك حديث مما تقدم، أو أنهم كانوا يفهمون ويتفكرون فيما يقرؤونه مع هذه السرعة، والله أعلم.

 

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے منع فرماتے ہیں لیکن اس ممانعت کی حیثیت ارشاد یا مشورے کی ہوتی ہے اور اس کا ماننا اور نہ ماننا دونوں جائز ہوتے ہیں اور آپ کے ایسے حکم کی مخالفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی تصور نہیں ہوتی، جیسے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ کو جب آزادی حاصل ہوئی تو شرعی مسئلہ کے تحت ان کو اپنے خاوند حضرت مغیث کے پاس رہنے یا نکاح فسخ کرانےکی اجازت ملی، انہوں نے حضرت مغیث سے علیحدگی کو ترجیح دی اور وہ بے چارے گلیوں میں حضرت بریرہ کے پیچھے رو رو کر یہ التجا کرتے رہے کہ تو مجھ سے الگ نہ ہو، مگر وہ نہ مانیں اس پر آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بریرہ! تو مغیث کے پاس ہی رہے تو کیا اچھا ہے، وہ کہنے لگیں کہ   يا رسول الله تأمرني؟  یعنی کیا آپ مجھ کو اس کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ حکم تو نہیں دیتا، ہاں صرف سفارش کرتا ہوں، انہوں نے کہا کہ پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

صحيح البخاري (7/ 48):
"أن زوج بريرة كان عبداً يقال له: مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: «يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثاً» فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لو راجعته».

خلاصہ یہ کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بطورِ مشورہ ہوتا ہے اور اس کی مخالفت مذموم نہیں ہوتی، لہذا تین دن یا سات دن سے کم ایام میں قرآنِ کریم ختم کرنا شرعاً مذموم اور نا پسندیدہ نہیں بشرطیکہ قرآنِ کریم کی تلاوت درست کی جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں