بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تہجد، اشراق، چاشت کی نمازوں کی کعات احادیث کی روشنی میں


سوال

تہجد، اشراق، چاشت اوابین کی رکعات حدیث کی روشنی میں عنایت فرمادیں۔

جواب

تہجد ، اشراق ، چاشت ، اوابین کی نمازوں کا تذکرہ مختلف کتابوں میں مختلف سندوں کے ساتھ منقول ہے ، یہاں مختصراً ایک ایک حوالہ کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، تفصیل کے لیے دیگر کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :

تہجد:

"حدثنا عبيد الله بن موسى قال: أخبرنا حنظلة عن القاسم بن محمد عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه و سلم يصلي من الليل ثلاثة عشرة ركعةً، منها الوتر وركعتا الفجر". (صحيح البخاري ، كتاب الصلاة، باب كيف كان صلاة النبي ﷺ؟ و كم كان النبي ﷺ يصلي من الليل؟ رقم:1148، مكتبة دارالتاميل )

اشراق :

 "حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ أَبِى شَجَرَةَ عَنْ نُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ لاَتُعْجِزْنِى مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ فِى أَوَّلِ نَهَارِكَ أَكْفِكَ آخِرَهُ »". (سنن أبي داود، کتاب الصلاة، باب صلاة الضحی، ص: ۱۸۳، ط: ایچ ایم سعید کراچی)

چاشت:

"حدثنا أبو كريب [ محمد بن العلاء ] حدثنا يونس بن بكير عن محمد بن إسحق قال: حدثني موسى بن فلان بن أنس عن عمه ثمامة بن أنس بن مالك عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من صلى الضحى ثنتي عشرة ركعةً بنى الله قصراً من ذهب في الجنة". (سنن الترمذي، باب ما جاء في صلاة الضحیٰ :۱۔۱۰۸ ، ط: مکتبۃ المیزان )

اوابین:

"حدثنا أبو كريب [ يعني ] محمد بن العلاء ] [ الهمذاني ] حدثنا زيد بن الحباب حدثنا عمر بنأبي خثعم عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةً". (سنن الترمذي، باب ما جاء في فضل التطوع ست ركعات بعد المغرب،ٍ ص :98، ط:الميزان)

 یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن چوں کہ  اس کے توابع اور شواہد پائے جاتے ہیں اس لیے قابل قبول ہے ۔

اس کے علاوہ دو باتیں ان روایتوں سے متعلق سمجھنا ضروری ہے:

1-  ان نوافل کے ثبوت کے لیے صرف یہی روایات نہیں ہیں،  بلکہ مزید روایتیں بھی موجود ہیں، یہاں اختصاراً صرف ان روایات پر اکتفا کیا گیا ہے۔

2- اوابین کی نماز کے بارے میں علماء نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں کہ اس نماز سے کون سی نماز مراد ہے؟ اکثر کا قول یہی ہے کہ اس سے مراد مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جانے والی نماز ہے،  اسی کے اعتبار سے یہاں روایت تحریر کی گئی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں